جنوبی وزیرستان میں لیک ہونے والی ایک ویڈیو جو بعد میں دو لڑکیوں کے قتل کی وجہ بنی، سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد قومی اور بین الاقوامی خبروں کا حصہ بنی رہی ہے۔ ہمارے علاقے کے لوگ بھی ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔
کوئی اسے انٹرنیٹ اور تھری اور فور جی سے جوڑ رہا ہے تو بعض اسے کسی خاص شخص سے یا کسی خاص ایجنڈے کا نام دے کر پیش کر رہے ہیں۔ اور تو اور یہاں تک کہ بعض نیوز چینل تو اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ مقامی صحافی اس بارے میں کیوں خاموش ہیں۔ ان کی خاموشی کی کیا وجوہات ہے؟ وہ جو ہر معاملے میں بڑھ چڑھ کر بولتے اب جب لڑکیوں کا معاملہ آگیا ہے تو خاموش کیوں ہو گئے؟
اب جیسا کہ جو ویڈیو وائرل ہوئی اور لڑکیوں کو اس کی سزا بھی ملی اور ویڈیو وائرل کرنے والا اور قتل کرنے والے بھی پولیس کی حراست میں ہیں لہذا اگر دیکھا جائے تو اس میں ہم سب قصور وار ہیں - اس میں ہمارے مشران، ہمارے نوجوان، والدین اور ہماری حکومت سب برابر کے شریک ہیں۔
اس طرح کے واقعات اور وہ بھی قبائلی علاقوں میں آپ کو دیکھنے کو نہیں ملتے اور اگر ملتے بھی ہیں تو وہ سخت ردعمل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہاں پر اگر ہم دیکھیں تو اس طرح کے واقعات میں ایک ماں کی گود سے لے کر بچوں کی شادی تک اس کے والدین شامل ہوتے ہیں۔ والدین کی ذمہ داری صرف بچوں کو پیدا کرنا ہی نہیں بلکہ ان کی صحیح تربیت کرنا اور ان میں شعور پیدا کرنا بھی انتہائی اہم ہے۔
اور یہ شعور کیسے آئے گا یقینا تعلیم سے کیونکہ ایک تعلیم یافتہ ماں ہی اپنے بچوں کی صحیح پرورش کر سکتی ہے۔ یہ تعلیم صرف ڈگری لینا نہیں بلکہ اچھے اور برے کو جان لینا ہی تعلیم ہے۔ اپنے بچوں کو یا اپنی بیٹیوں کو اکثر ہم صرف اس وجہ سے نظر انداز کر دیتے ہے کہ یہ تو ویسے بھی گھر میں ہی ہیں اور گھر سے باہر نہیں نکلتی تو ان کو کچھ سمجھانے کی شاید ضرورت ہی نہیں۔ ہم اپنی بیٹیوں کو پیدا کر کے صرف گھریلو امور سیکھا کر سمجھتے ہے کہ ہم نے اپنی ذمہ داری نبھا دی ہے۔
لیکن ہم اپنے بچوں کی اخلاقی لحاظ سے تربیت کو اتنا اہم نہیں سمجھتے۔ یہاں اخلاقی تربیت صرف ماں باپ کا ہاتھ بٹانا ہی نہیں بلکہ ان کی سوچ کو پختہ کرنا اور ان کو ہر طرح کے لوگوں اور ہر طرح کے حالات سے آگاہ کرنا ہے۔ انہیں اس دنیا کے لوگوں کی شناخت کرنا سکھانا ہے اور یہ سب کچھ تعلیم سے ہی ممکن ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جس طرح سے ان لڑکیوں کو قتل کیا اس طرح کے واقعات پاکستان بلکہ پوری دنیا میں رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن وزیرستان میں میرے خیال میں پہلا واقع ہے۔ اس پر مقامی صحافیوں کی خاموشی اپنے علاقے کے رسم ورواج اور امن کی خاطر ہے کیونکہ مقامی صحافی حالات کی نزاکت اور اس کے ردعمل کو اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ ان کی خاموشی مزید خون خرابے کی روک تھام کرنا ہے۔ ایسے واقعات کو لو پروفائل ہی میں رکھنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ جو ہونا ہے وہ ہوگیا اور مزید اس خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا حالات کو مزید سنگینی کی طرف لے جاتا ہے۔
اب آتے ہے اسلام کی طرف۔ مذہب نے عورت کو اگر آذادی دی بھی ہے تو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے۔ نہ کہ آج کل کی وہ آذادی جو ایک عورت کو گھر کی چار دیواری سے نکال کر فحاشی وعریانی اور مغربی طرز پر لے آتی ہے اور عورت عورت نہیں بلکہ ایک شو پیس بن جاتی ہے۔ وہ مغربی طرز زندگی کو آذادی سمجھتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اسلام نے ہر معاملے میں اپنی حدود متعین کی ہوئی ہیں کہ اگر ان حدود سے نکل جائیں تو نقصان ہے اور اس سے دوری بھی نقصان کا باعث بنتی ہے۔
اگر ہم عورتوں کو تعلیم کی روشنی سے محروم کر دیتے ہے تو اس کے ساتھ ہم ایسے نقصانات سے دوچار ہوتے رہیں گے۔ اگر ہم اپنے بچوں پر نظر نہیں رکھیں گے، ان سے دوری رکھیں گے اور ان کو دوست نہیں بنائیں گے تو شاید ہمیں ایسے واقعات کا بار بار سامنا کرنا پڑے۔
کسی واقعے کو کسی تنظیم کے ساتھ یا کسی دوسرے واقعے سے جوڑنا عقل مندی نہیں بلکہ اگر ہم اپنی بہنوں بیٹیوں کو پختہ سوچ دیں گے اور اس کو تعلیم کی روشنی دیں گے تو شاید دنیا کی کوئی قوت بھی اس کی انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے۔
اس کی مثال ایک عمارت سے لیتے ہیں کہ اگر اس کی بنیاد پختہ ہوگی تو چاہے جتنی تیز آندھی، زلزلے کیوں نہ آیں وہ عمارت کو نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اگر بنیاد ہی کمزور ہو تو وہ عمارت ہوا کے عام جھونکے کے ساتھ ہی آپ پر گر سکتی ہے۔ لہذا ایک دوسرے پر الزام تراشی سے بہتر ہے کہ ہم خود اپنے بچوں کی سوچ پختہ بنائیں اور دوستانہ ماحول فراہم کریں تاکہ وہ ایک دوست کی طرح آپ سے ہر بات شیئر کرتے رہیں۔