ایک سینیئر فلسطینی عہدیدار کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ سکیورٹی تعاون کے خاتمے کے بعد انہوں نے سی آئی اے کے ساتھ رابطے کو بھی معطل کر دیا ہے۔
یہ اقدام انہوں نے اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ضم کرنے کی تجاویز کے خلاف احتجاج کے طور پر کیا ہے۔
فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سیکرٹری جنرل صائب عريقات نے کہا کہ واشنگٹن کو اس اقدام کے بارے میں منگل کو فلسطینی صدر محمود عباس کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی اور تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے اسرائیل کے ساتھ دستخط کیے گئے معاہدوں کو منسوخ کرنے کے اعلان کے بعد آگاہ کر دیا گیا ہے۔
’اس کے بعد ہماری انتظامیہ کو اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ معاہدوں، جن میں سکیورٹی تعاون بھی شامل ہے، کی پاسداری کی کوئی ذمہ داری نہیں رہی ہے۔‘
صائب عريقات نے ایک ویڈیو کال میں صحافیوں کو بتایا کہ ’امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے ساتھ تعاون فلسطینی صدر کے خطاب کے ساتھ ہی ختم ہوگیا تھا۔‘
2017 میں فلسطینیوں کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امن کوششوں کے بائیکاٹ کے باوجود سی آئی اے کے ساتھ ان کا انٹیلی جنس تعاون جاری رہا تھا۔
فریقین نے اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے، جہاں فلسطینی اتھارٹی قائم ہے، میں تشدد کو ختم کرنے کے لیے مل کر کام جاری رکھا تھا۔
محمود عباس کی جانب سے سکیورٹی تعاون ختم کرنے کی دھمکیاں ماضی میں دی جاتی رہی ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کیا۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں فلسطینی گروپ حماس جیسے اندرونی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے فلسطینیوں کی حمایت درکار ہے۔ لیکن صائب عريقات نے کہا: صورت حال میں تبدیلی آئی ہے اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس وقت اب تبدیل ہونے کا وقت ہے۔ امریکہ کے ساتھ مزید سکیورٹی تعاون نہیں ہوگا۔ اسرائیل کے ساتھ سلامتی کی معاونت مزید نہیں ہے۔ ہم صرف امن عامہ اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھیں گے۔‘
بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے نے اس اعلان پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعد میں ایک سینیئر فلسطینی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ فلسطینی فورسز نے مغربی کنارے کے چند حصوں سے انخلا شروع کر دیا ہے جہاں انہوں نے کرونا وائرس کی آمد کے بعد اسرائیلیوں کے ساتھ مل کر نگرانی کی تھی۔
’سکیورٹی تعاون کے خاتمے کے بارے میں صدر کی ہدایات کی روشنی میں اسرائیل کو ’جزوی انخلا‘ کے بارے میں مطلع کر دیا گیا ہے۔‘
اسرائیلی حکام نے فوری طور پر اس اعلان کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور یہ ابھی واضح نہیں کہ فلسطینی فورسز کا انخلا کتنا وسیع ہے۔
فلسطینی اس بات پر فکرمند ہیں کہ اسرائیل واشنگٹن کی سرپرستی کے ساتھ یہودی بستیوں اور مغربی کنارے میں وادی اردن پر اسرائیلی اختیار نافذ کر دے گا جسے وہ قبضے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
فلسطینی مغربی کنارے اور غزہ میں مشرقی یروشلم کے بحثیت دارالحکومت ریاست کے خواہاں ہیں۔
فلسطینی صدر نے اس جانب توجہ دلائی کہ فلسطینی ریاست بین الاقوامی قانونی قرار دادوں اور متعلقہ عرب اور اسلامی فیصلوں کی پابند ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ دو ریاستی حل کی بنیاد پر فلسطینی اسرائیلی تنازع حل کرنے کے اصولی موقف پر قائم ہیں۔
محمود عباس نے امریکی امن منصوبے کو مسترد کر دینے والے عالمی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ امن، بین الاقوامی قانون اور اس کی حیثیت کو بچانے کے لیے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کریں۔