چین اور بھارت کے درمیان مشرقی لداخ میں سرحدی کشیدگی بدستور قائم ہے اور ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کیا دونوں ممالک کے درمیان ایک مرتبہ پھر اس تنازعے پر جنگ ہوسکتی ہے یا نہیں۔ تاہم پاکستان نے بڑھتی ہوئی کشیدگی کا ذمہ دار بھارت کو ٹھرایا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ پاکستان کو بھارت سے فالس فلیگ آپریشن کا خطرہ ہے جبکہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کی ہمسایہ ممالک کی جانب جارحانہ پالیسی خطے کے امن و استحکام کو خطرہ قرار دیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’نازیوں کی لیبینزورم (لیونگ سپیس) کی طرح ہندوتوا کے خمیر سے جنم لینے والی مودی سرکارکی توسیع پسندانہ پالیسیاں بھارت کے ہمسایوں کے لیے مسلسل خطرہ ہیں۔‘
’شہریت کے قانون سے بنگلہ دیش تو ایک جعلی کارروائی (فالس فلیگ آپریشن) سے پاکستان کو خطرہ ہے جبکہ نیپال/چین کے ساتھ سرحدی تنازعات صورتحال کی سنگینی کو ہوا دے رہے ہیں۔‘
The Hindutva Supremacist Modi Govt with its arrogant expansionist policies, akin to Nazi's Lebensraum (Living Space), is becoming a threat to India's neighbours. Bangladesh through Citizenship Act, border disputes with Nepal & China, & Pak threatened with false flag operation.
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) May 27, 2020
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے الیکٹرانک میڈیا سے گفتگو میں متنبہ کیا کہ بھارت کی ہمسایہ ممالک کی جانب جارحانہ پالیسی خطے کے امن و استحکام کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا اس رویے کا نوٹس لے۔ انہوں نے لداخ میں بھارت کی جانب سے ہوائی پٹی اور دیگر تعمیرات پر تشویش کا اظہار کیا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ چین بھارت کے ساتھ کشیدگی نہیں چاہتا اور مسائل کا بات چیت کے ذریعے حل چاہتا ہے تاہم انہوں نے زور دیا کہ چین بھارت کی جانب سے غیرقانونی تعمیرات پر خاموش نہیں رہے گا۔
اگرچہ چین اور بھارت کے اعلی حکام نے بظاہر براہ راست لب کشائی نہیں کی ہے لیکن بھارتی میڈیا کی حد تک صورت حال کسی بھی وقت خراب ہوسکتی ہے۔
بھارت میں چینی کے صدر شی جن پنگ کے گذشتہ روز ایک بیان کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ چینی صدر نے بیجنگ میں نیشنل پیپلز کانگرس میں ایک خطاب میں پیپلز لیبریشن آرمی کو جنگ کے لیے تیار رہنے کا کہا ہے۔ ’جنگ کی تیاری کے طریقوں کو دیکھنا ضروری ہے کیونکہ (کرونا) وبا کو قابو میں لانے کی کوششیں معمول پر آچکی ہیں۔ مسلح لڑائی کے لیے تیاریاں تیز کرنا ضروری ہے۔‘
ایک بین القوامی سائبر تنظیم میں کام کرنے والے نتھن روزر نے ایک ٹوئیٹ میں سیٹلائٹ کے ذریعے دونوں ممالک کی افواج کی پوزیشن بتانے کی کوشش کی ہے۔
In the last 2 days Ajai Shukla has increased his estimate of PLA soldiers on Indian soil by 5,000.
As of Friday, this was contradicted by satellite evidence. This is the current position of forces in the Galwan valley, with the LAC shown here from India's Ministry of Environment. https://t.co/R1XTgKGCL7 pic.twitter.com/OVFyjXS7Kr
— Nathan Ruser (@Nrg8000) May 26, 2020
چین نے حالیہ دنوں میں اپنے دفاعی بجٹ میں بھی گذشتہ برس کے مقابلے میں ساڑھے چھ فیصد اضافہ یعنی 178 ارب ڈالرز مختص کیے ہیں۔
لداخ میں اصل (ایکچول) لائن آف کنٹرول پر حالات کشیدہ بتائے جاتے ہیں۔ بھارتی اور چینی فوجی گلوان وادی، پینگ گانگ، تسو، ڈیمچک اور دولت بیگ اولڈی کے مقامات پر آمنے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے ہیں۔
تازہ کشیدگی پانچ مئی کو شروع ہوئی جب دونوں ممالک کے تعریباً اڑھائی سو فوجی آمنے سامنے آ گئے۔ اطلاعات ہیں کہ اس کے دو دن بعد تک فریقین کے تقریباً سو فوجی زخمی بھی ہوئے۔
چینی فوجیوں نے چند بھارتی فوجیوں کو چند گھنٹوں کے لیے ’حراست‘ میں بھی رکھا۔ لیکن مقامی کمانڈروں کے درمیان ملاقات میں کشیدگی کم کرنے پر اتفاق ہوا۔
لداخ میں کشیدگی کے تناظر میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کو اپنے قومی سکیورٹی کے مشیر اجیت دوول اور تینوں افواج کے سربراہان کے ساتھ ملاقات میں تبادلہ خیال کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چین نے حالیہ دنوں میں بھارت کی جانب سے ایل اے سی کی اپنی جانب نئی تعمیرات کی مخالفت کی جو اس کے مطابق سرحدی تنازع کے حل تک اس علاقے میں حالات جوں کے توں رکھنے کے معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ چین لداخ کے بعض علاقوں کو اپنا مانتا ہے۔ اس نے اکسائی چن پر 1962 کی جنگ میں قبضہ کیا اور اس وقت سے اسے خالی کرنے سے انکار کر رہا ہے۔
بھارت کی جانب سے گذشتہ برس 5 اگست کو جموں و کشمیر اور لداخ کو یونین ٹیرٹری کا درجہ دینے سے بھی بظاہر خوش نہیں تھا۔
بھارت اپنی جانب سڑکیں اور عمارتیں تعمیر کر رہا ہے تاکہ اپنی پوزیشن مستحکم کرسکے۔
سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک اس وقت علاقے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بھارتی ماہرین چین کے ساتھ کشیدگی کو 1999 میں پاکستان کے ساتھ کارگل کے مقام پر جنگ کے بعد کی سب سے بڑی کشیدگی قرار دے رہا ہے۔ تاہم کرونا وائرس کے خلاف پھنسے دونوں ممالک کس حد تک جائیں گے یہ معلوم نہیں۔