معروف افسانہ نگار، نقاد، مترجم، مدیر ڈاکٹر آصف فرخی پیر کو 60 برس کی عمر میں حرکت قلب بند ہو جانے سے کراچی میں اپنی رہائش گاہ پر انتقال کر گئے. آصف فرخی معروف ادیب و نقاد اسلم فرخی کے فرزند تھے.
آصف فرخی یونیسف کے ساتھ طویل عرصہ تک منسلک رہے اور چند برس پہلے ریٹائر ہوئے. انہوں نے اپنے ادبی کرئیر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا لیکن بعد ازاں عالمی ادب سے بے شمار تراجم بھی کیے جن میں رفیق شامی کے ایک معروف ناول مٹھی بھر ستارے کے عنوان سے اردو کے قالب میں ڈھالا.
اردو ادب کی تنقید میں بے حد اہم کام کے ساتھ ساتھ انہوں نے شہرزاد کے نام سے اشاعتی ادارے کا آغاز بھی کیا جس کے تحت انہوں نے بہت سی علمی و ادبی کتابوں کو شائع کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا زاد کے نام سے اکتوبر 2000 میں ایک ادبی کتابی سلسلے کا آغاز کیا جس نے بہت جلد اردو کے نمایاں ترین ادبی پرچے کا مقام حاصل کر لیا.
اس کتابی سلسلے کے تحت آصف فرخی نے'عاشق من الفلسطین' ، دنیا دنیا دہشت ہے اور میں بغداد ہوں کے عنوان سے جو ضخیم خصوصی نمبر شائع کیے انہیں ہمیشہ ایک اہم ادبی اور سیاسی دستاویز کے طور پر یاد رکھا جائے گا.وہ کراچی ادبی میلے کے بانیوں میں سے بھی تھے۔
ڈاکٹر آصف فرخی بے حد متحرک شخصیت کے مالک، دنیا بھر میں اردو کے حوالے سے منعقد ہونے والی کانفرنسوں اور دیگر تقریبات میں انہیں مدعو کیا جاتا تھا. ان کے افسانوی مجموعوں میں میرے دن گزر رہے ہیں، ایک آدمی کی کمی، شہر ماجرہ، شہر بیتی ، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا، چیزیں اور لوگ، اسم اعظم کی تلاش، اور آتش فشاں پر کھلے گلاب شامل ہیں. تنقید پر ان کی کتابوں میں عالم ایجاد، نگاہ آئینہ ساز ، چراغ شب افسانہ؛ انتظار حسین کا جہان فن شامل ہے.
ڈاکٹر آصف فرخی کے قریبی دوست معروف ادیب اور صحافی انور سن رائے نے انڈپینڈینٹ اردو کو بتایا کہ آصف فرخی کے والد اسلم فرخی کراچی یونیورسٹی میں ہمارے استاد تھے، اس وقت آصف فرخی سکول میں پڑھتے تھے۔ بہت شرمیلی شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارا ایک سرکل تھا جس میں میں ،آصف فرخی، افضال احمد سید اور تنویرانجم شامل تھے۔، ہم ہفتے میں ایک بار ضرور ملتے تھے اور جب بھی آصف فرخی کے گھر ادبی محفل سجتی تو ہم اس کا حصہ ہوتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ آصف فرخی کی دو بیٹیاں ہیں ایک کینیڈا میں اور دوسری امریکہ میں ہیں اور دونوں شادی شدہ ہیں۔ آصف فرخی میڈیسن کے ڈاکٹر تھے ڈائو یونیورسٹی سے طب کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھے اور اس وقت وہ کراچی کی حبیب یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ انور سن رائے نے بتایا کہ ڈاکٹر آصف فرخی کی 60 سے زائد کتابیں ہیں، انہوں نے ناول نہیں لکھا مگر ناولوں کے ترجمے بہت کیے اس کے علاوہ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس لیے مختلف ادیبوں کے کام سے انتخاب کی طویل ادبی سیریز کا آغاز بھی کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سندھی اور دیگر علاقائی زبانوں کے ادیبوں کو متعارف کروانا اور انہیں آگے لانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اکادمی ادبیات پاکستان کے لاہور کے ریذیڈینٹ ڈائریکٹر اور معروف فکشن رائٹر اور مترجم آصم بٹ نے انڈپینڈینٹ اردو کوبتایا کہ کراچی لٹریچر فیسٹیول ہو یا لاہور لٹریچر فیسٹیول اس تمام ادبی گہما گہمی کے پیچھے آصف فرخی کا ایک اہم کردار تھا۔ اور اس کی تقلید کرتے ہوئے پورے ملک میں ادبی میلوں کا رواج پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ آصف فرخی کافی عرصہ سے کہانی لکھنا تو چھوڑ چکے تھے مگر انہوں نے ادبی ایکٹیوازم کو اپنا لیا اور اس میں انہوں نے جو کام کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔'
ان کے دوست اور معروف ادیب و نقاد ناصر عباس نیر نے انڈپینڈینٹ اردو کو بتایا کہ ڈاکٹر آصف فرخی ہمارے عہد کے اہم لکھنے والوں میں سے تھےجنہوں نے فکشن اور تنقید میں میں بہت کام کیا۔ ان کاکہنا تھا کہ انتظار حسین پر اب تک کی سب سے اچھی لکھی ہوئی کتاب چراغ شب افسانہ ہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے جو اہم ترین ادبی پرچے ہوا کرتے تھے جن مثلاً ساقی، اوراق اور فنون وغیرہ اس کے بعد دنیا زاد اہم ادبی پرچہ تھا جس کے آصف مدیر تھے۔ انہوں نےاس رسالے کے تحت کراچی اور فلسطین پر بہت شاندار خصوصی نمبر شائع کیے اور ان دنوں وہ کرونا کی وبا سے متعلق ایک خصوصی نمبر پرچے کو ترتیب دے رہے تھے کہ یہ وبا کس طرح سے ہمارے معاشرے اور خاص طور پر ادب پر اثر انداز ہورہی ہے۔'
حلقہ ارباب ذوق لاہور کے سیکرٹری عامر فراز نے آصف فرخی کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے انڈپینڈینٹ اردو کو بتایا ' میں انہیں 22 برس سے جانتا تھا اور ان کا یوں چلے جانا جہاں میرے لیے ذاتی طور پر ایک رنج و تکلیف کا باعث ہے وہیں یقینا اردو ادب کے لیے بڑا نقصان ہے.' عامر فراز نے یہ بھی بتایا کہ رواں برس ڈاکٹر آصف فرخی کی آخری کتاب ' ایک کہانی نئے مضمون کی'لاہور سے شائع ہوئی یہ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے اس سلسلے میں انہوں نے 22 فروری کو لاہور میں ایک تقریب کا اہتمام بھی کیا جہاں انہون ے بےشمار ادبی موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ انہوں نے طویل عرصہ سے کوئی کہانی نہیں لکھِ مگر اب ان دنوں وہ اپنے کچھ افسانوں پر کام کر رہے ہیں ۔ آصف فرخی کی اپنے لاہور کے چند دوستوں سے یہ آخری ملاقات تھی. آصف فرخی کی یہ آخری کتاب حال ہی میں انتقال کرنے والی معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کے نام ہے۔
جوائے آف اردو کی بانی زرمینہ انصاری نے دبئی سے انڈپینڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اشک بار ہوگئیں، انہوں نے بتایا کہ جب میں پاکستان آئی اور جوائے آف اردو کے آئیڈیا پر ان سے بات کی تو انہوں نے میری بے انتہا حوصلہ افزائی کی اور بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ کراچی میں بھی جوائے آف اردو کا چیپٹر شروع کرو اور جب جوائے آف اردو بنا تو انہوں نے ہمارے ساتھ بہت سی بیٹھکیں کیں ۔