’لوگوں کو میری معذوری میرے والدین کی کسی غلطی کا نتیجہ لگتا ہے، وہ جب اس طرح کے کمنٹس کرتے ہیں تو بجائے دل برداشتہ ہونے کے میں دل سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ ان کو ہدایت دے۔‘
یہ الفاظ ہیں اسلام آباد کے رہائشی 24 سالہ عمر جاوید کے، جن کا آبائی علاقہ مردان ہے اور وہ پاکستان کے صدر بننا چاہتے ہیں۔
راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال میں جب پانچ مئی 1995 کوعمر جاوید اس دنیا میں آئے تو نرسوں نے ان کے والد جاوید اختر، جو کہ ایک سرکاری محکمے میں بطور ڈرائیور کام کر رہے ہیں، کو خبر دی کہ ان کا بیٹا پیدا ہوا ہے لیکن ان کے دونوں ہاتھ نہیں ہیں تو ان کے والد کے منہ سے الفاظ نکلے کہ ’یہ میرا لخت جگر ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مگر جب عمر کی والدہ نے انہیں پہلی بار گود میں اٹھایا تو وہ رو پڑیں اور کہا کہ یہ ’بچہ مستقبل میں کیا کرے گا؟‘
تاہم وہی عمر اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی اے کر رہے ہیں اور کسی کی مدد کے بغیر اپنے سارے کام خود کرتے ہیں۔
عمر کے دونوں ہاتھ نہیں ہیں، وہ اپنے پاؤں سے ہی کھاتے پیتے ہیں، پاؤں سے ہی قلم پکڑ کر کئی گھنٹے لکھتے ہیں، رنگ برنگی پینسلوں سے پینٹنگز بناتے ہیں اور کمپیوٹر پر اپنے پاؤں ہی کی مدد سے کسی ماہر کمپیوٹر آپریٹر کی طرح کام کرتے ہیں۔
2004 میں عمر سابق صدر پرویز مشرف سے ملے تھے اور پرویز مشرف نے انہیں اپنی گود میں بٹھائے رکھا۔
2008 میں سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات ہوئی اور ان سے ایک تقریب کے دوران بہترین پینٹنگ پر ایوارڈ بھی وصول کر چکے ہیں۔
عمرجاوید کے مطابق معاشرے میں موجود معذور افراد ہمدردی کے نہیں بلکہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ جسمانی معذوری کے باوجود ان کے اندر بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں اور وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر خود کو منوا سکتے ہیں۔
اس وقت عمر حکومتی سطح پر معذور افراد کے لیے کیے گئے اقدامات سے کچھ زیادہ مطمئن نہیں۔
ان کے مطابق معذور افراد کو کوٹے کے مطابق نوکریاں نہیں دی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے انہیں مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔