اصل میں کرونا ہے نہیں، کم از کم پاکستان میں تو نہیں ہے۔ اٹلی میں رہتے ہوئے یہاں کے لوگوں کی احتیاط کا مشاہدہ کرتے ہوئے لگتا تھا کوئی سنگین نوعیت کا وائرس ہے اور چونکہ اس کی ویکسین بھی دریافت نہیں ہوئی تو گھر بیٹھنے میں ہی عافیت ہے۔ اتفاق سے یہاں پر اس کے مثبت نتائج بھی نظر آ رہے ہیں۔
پاکستان میں صورتِ حال بالکل مختلف ہے، کیوں کہ پاکستانی بہادر ہیں، ان کا ایسا چھوٹا موٹا وائرس کیا بگاڑ سکتا ہے۔ اور ویسے بھی آج کل وطنِ عزیز میں ارطغرل بڑے شوق سے دیکھا جارہا ہے، تو جو ارطغرل کے شیدائی ہوں، وہ بھلا ایک وائرس سے ڈر جائیں گے؟
رمضان کے آخری عشرے میں عید کی تیاریوں کے لیے نکلنے والے ریوڑ کی ویڈیوز دیکھیں اور آنکھیں پھٹ گئیں۔ چین، اٹلی، انگلینڈ، یورپ، امریکہ، کینیڈا سب ہی لاک ڈاؤن نافذ کر اپنے شہریوں کو گھروں میں قید کیے بیٹھے ہیں۔ حتی کہ خلیجی ممالک میں بھی سخت لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے۔
مگر جہاں دنیا بھر کے علمی ذخائر ختم ہوتے ہیں، وہاں سے ہمارا آغاز ہوتا ہے اور یہ سارا گیان فیس بک اورواٹس ایپ پر صبح شام فی سبیل اللہ بٹتا رہتا ہے۔ یہ لوگ نہیں جانتے کہ کرونا وائرس دراصل عام نزلہ زکام ہے اور چند دن میں خود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے، یہ تما م ممالک اس حقیقت سے بھی واقف نہیں کہ یہ بل گیٹس کا پھیلایا ہوا پروپیگنڈا ہے اور وہ چپ انسٹال کرنا چاہ رہے ہیں۔ پچھلے چند دن سے معلومات میں مزید اضافہ ہوا کہ حکومت کرونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کے لیے تمام مریضوں کو اسی ایک کھاتے میں ڈال رہی ہے۔ ہسپتال جانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہاں زہر کے انجیکشن لگائے جا رہے ہیں۔
ان بے بہا معلومات کے بعد انسان اپنی جہالت پر کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔ کہاں ہم پچھلے تین ماہ سے دیار غیر میں دبک کر گھر بیٹھے ہیں۔ کہاں یہ والدین جو عید کی شاپنگ کے لیے بچے ساتھ لیے بازاروں میں گھوم پھر رہے تھے حتیٰ کہ روشنیوں کے شہرمیں عید سے دو روز قبل ہونے والے ہوائی حادثے میں 100جانوں کا نقصان بھی ہمیں سادگی سے عید منانے کی جانب مائل نہ کر سکا۔
تو کیا ہوا مسیحیوں نے اپنا ایسٹر گھر میں منایا۔ حرمین شریفین میں نمازوں پر پابندی عائد کی گئی مگر پاکستان میں مساجد کھولنے اور پابندیاں ہٹانے پر بحث جاری رہی۔ گھریلو اطلاعات کے مطابق خود ہمارے محلے کی دونوں مساجد لاک ڈاؤن کے باوجود کھلوائی گئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم نے اپنے چھوٹے بھائی کو وزیر خارجہ کا منصب دیا ہوا ہے تا کہ وہ ہمیں محلے کی خبریں پہنچائے۔ اس کی رپورٹ کے مطابق گلی محلے لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ کھیل، سیروتفریح جاری ہے۔ جیسے ہی پولیس کی کوئی گاڑی گلی میں داخل ہوتی ہے سارے لوگ بھاگ جاتے ہیں اور ان کے واپس جانے پر سب لوگ پھر سے گلیوں کی زینت بن جاتے تھے۔ ظاہر ہے یہ یقینا پولیس کی ذمے داری ہے کہ وہ ہاتھ جوڑ جوڑ کر ہمیں گھر بیٹھنے کی نصیحتیں کرے تاکہ ہم محفوظ رہ سکیں۔ ’احتیاط علاج سے بہتر ہے‘کا مقولہ ہم نے سنا نہیں ورنہ یقیناً ماسک، ہاتھوں کے دستانے اور دوسری احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرتے۔
واٹس ایپ پر ایک فیملی گروپ ہے جس میں تمام کزنز موجود ہیں۔ اس پر جب بھی کوئی خبریا احتیاطی تدابیر ڈالنے کی کوشش کی۔ ہنسی ٹھٹھہ ہی سننے کو ملا۔ ’اچھا تو یہ صرف سلیبرٹی ہی کیوں بیمار ہورہے ہیں ظاہر ہے مشہور ہونے کے طریقے ہیں،اٹلی میں ہوتا ہوگا کرونا، پاکستان میں نہیں ہے،فلاں کے بیٹے کو ہوا تھا، وہ تو بالکل ٹھیک گھوم رہا ہے اور ایسے بہت سے اور بہانے۔ ‘
حسین اتفاق ہے، پاکستان میں وائرس نہیں ہے مگر علاج سو طرح کے ہیں۔ پیاز کو کاٹ کر کھائیں، اردک کا رس پی لیں، لیموں نچوڑ لیں اور اس جیسے بے شمار نسخے کرونا سے پہلے ہی پاکستان پہنچے ہوئے ہیں۔
ابھی تک ہم نے پولیو کو سنجیدہ نہیں لیا جس کا نام و نشان تک دنیا سے مٹ چکا ہے تو کرونا کیا چیز ہے، فی الحال تو یہ پوری دنیا میں راج کر رہا ہے، ہم فرصت سے اس پر غور کریں گے۔
اس وقت اہل علم کی ترجیح کرونا کی ویکسین تیار کرنا ہے۔ لاک ڈاؤن سے ہونے والے معاشی اور نفسیاتی مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ ان سب کے درمیان ہم عید کے چاند کا جھگڑاہی نمٹا رہے تھے اور نجانے اگلے کئی سالوں تک یہی کرتے رہیں گے۔ اگر ہم اس وائرس کے وجود کاہی یقین کر لیں تب بھی اسے ہماری کامیابی ہی سمجھیے۔ جب اس کا علاج دریافت ہوجائے گا، ہم بڑے فخر سے کہیں گے کہ سائنس نے آج بتایا ہے ہم کئی صدیاں پہلے سے واقف تھے۔
دنیا جہاں میں لاک ڈاؤن کے باعث کیسوں میں کمی آ رہی ہے، ہمارے یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس سے ہونے والی اموات کی شرح زیادہ نہیں ہے۔ مبشر علی زیدی نے اپنے فیس بک سٹیٹس میں لکھا کہ ان سے کسی نے سوال کیا کہ 22 کروڑ کی آبادی میں اگر سو لوگ ایک دن میں کرونا وائرس سے مر جائیں تو شرح کتنے فیصد بنتی ہے؟
وہ جواب میں کہتے ہیں، :’یہ تو نہیں معلوم لیکن اتنا پتہ ہے کہ آپ کے پاس صرف ایک زندگی ہے اور وہ کرونا وائرس میں مبتلا ہو کر ختم ہو گئی تو اس کی شرح پورے سو فیصد ہو گی۔‘
تادم تحریر دنیا بھر میں اس وائرس سے پونے چار لاکھ سے زائد اموات ہو چکی ہیں اور 66 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔ مگر غالب بھی ٹھیک ہی کہہ گئے:
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
اس لیے ابھی تک تو پاکستان میں کرونا کا چاند نظر نہیں آیا۔