رات کے پونے 12 بجے ہی تھے کہ چرچ سےگھنٹیاں بجنے کی آوازیں آنے لگیں۔عام طور پر یہ گھنٹیاں روزانہ صبح آٹھ اور شام چھ بجے سنائی دیتی ہیں۔ لاک ڈاؤن میں بھی باقاعدگی سے یہ سریلی آواز دن میں دو مرتبہ دور تک پھیلے خاموشی کے حصار کو توڑ دیتی ہیں۔
مگر اتنی رات گئے گھنٹیوں کو زحمت دینے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ تھوڑاغور کرنے پر یاد آیا کہ آج 12 اپریل ہے اور'ایسٹر' کا آغازہو چکا ہے،غالبا چرچ کا یہ اعلان بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس طرح رمضان اور عید کا چاند نظرآنے پر تمام مساجد میں سائرن بجائے جاتے ہیں شاید یہاں بھی ایسی ہی کوئی روایت ہو۔
اگلے 15منٹ تک گھنٹیوں نے یوں ہی فضا میں شور بکھیرا ہوا تھا اور یہ سلسلہ 12 بجے رک گیا۔ ایسٹر کرسمس کے بعد مسیحیوں کا دوسرا اہم تہوار ہے جو گڈ فرائیڈے کے بعد آنے والے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ گڈ فرائیڈے وہ دن ہے جب مسیحیوں کے عقیدے کی رو سے یسوع کو صلیب سے لٹکایا اور ایک قبر میں دفنا دیا گیا تھا جبکہ دو دن بعد یہ لاش قبر سے غائب ہونے پر لوگوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ انہیں خدا کی جانب سے ابدی زندگی عطا کی گئی ہےاور اپنی جانب اٹھا لیا گیا ہے۔ مسیحی اسے ایک معجزہ خیال کرتے ہیں اورا سی خوشی میں ہر سال بہار کے موسم میں ایسٹر منایا جاتا ہے۔
یہودیوں نے سب سے پہلے اس تہوار کو منانے کی بنیاد ڈالی۔ ماضی میں ایسٹرکو’پاسکا’کےنام سے یاد کیا جاتا تھااورگڈفرائیڈے کے بعدپورے ہفتے مختلف دنوں میں منایاجاتا رہا۔325عیسوی میں روم کے بادشاہ قسطنطین اورمسیحیوں کے مذہبی اجتماع نائیکیہ کی کونسل نے مل کر حکم دیا کہ ایسٹر صرف اتوار کے روز ہی منایا جائے۔ عام طور پر اسے 22مارچ سے لے کر25 اپریل کے درمیان اتوار کے روز ہی منایا جاتا ہے۔ چرچ میں پاسکل موم بتی جلانے کی ابتدا بھی ایسٹر ہی سے ہوئی ۔اسے ایسٹر کینڈل بھی کہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک مہینہ قبل ہی مجھے سپر سٹوروں میں مختلف قسم کےتحائف نظرآئے تھے۔ ان میں زیادہ تر چاکلیٹیں تھیں جنہیں خاص طور پر انڈے کی شکل میں پیک کیا گیا تھا۔ انڈے اور خرگوش کو ایسٹر سے خاص نسبت ہے۔ بچوں کومختلف چیزوں کے بنے رنگین انڈے تحائف میں دیے جاتے ہیں۔
اس ایسٹر پر اٹلی کی سڑکوں پر تہواروں کی سی رونق نہیں ہے۔ لوگ گھروں میں محصور ہیں۔ سپر سٹوروں پر چاکلیٹ اور نت نئی پیکنگ میں موجود انڈوں کے پیچھے بھاگنے والے بچے بھی نظرنہیں آ رہے۔ اٹلی کے شہر کیتی میں تین بڑے چرچ ہیں۔ میں نہیں جانتی گھنٹیوں کی آواز کس چرچ سے آ رہی تھی مگر مجھے آٹھ مارچ کےدن کیتی کے مرکزی گرجا گھر کا اپنا دورہ یاد آ رہا ہے جو اتفاق سے اس لیے کیا تھا کہ جامعات بند ہونے کی وجہ سے میری دونوں اطالوی ساتھی لڑکیاں ماریہ اور پاسکوالینا اپنے اپنے گھروں کو جا چکی تھیں۔ ایسے میں اتوار کے روز گرجا گھر جا کر لوگوں کو گریہ وزاری کرتے دیکھا۔ اطالوی یوں تو سمجھ نہ آئی مگر پادری نے دو مرتبہ لفظ ’کرونا‘ ادا کیا تھا، شاید نجات کی دعا مانگی تھی۔
اس کے اگلے روزہی نافذ ہونےوالے ملک گیر لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ اب یہاں چرچ نہیں جاتے۔ مسیحیوں کے سب سے بڑے روحانی پیشوا پوپ فرانچسکو نے بھی سینٹ پیٹرز سکوائر کے خالی احاطے میں خطاب کیا جسے براہ راست نشر کیا گیا جبکہ ویٹیکن سٹی سے دیگرتمام رسومات بھی دکھائی جا رہی ہیں۔ اٹلی میں اموات 19 ہزار سے تجاوز کر گئی ہیں۔ پوپ فرانچسکو نے کہا: ’ایسٹر تاریک دور میں امید کا پیغام لاتا ہے۔‘
اطالویوں نے آٹھ مارچ کو گرجا گھروں میں جو دعائیں مانگی تھیں، اب اس کی قبولیت کے انتظارمیں ہیں۔ چرچ میں عبادات نہیں ہوتیں لیکن یہ گھنٹیاں اسی طرح لوگوں سے رابطے میں ہیں جیسے پہلے تھیں۔ یہ اب بھی مخصوص اوقات میں آ کر کانوں کے پردے پر دستک دیتی ہیں، کچھ دیر ٹھہرتی ہیں اور پھر اگلے دن آنے کا وعدہ کر کے رخصت ہو جاتی ہیں۔