تاریخ دراصل بڑے لوگوں کے بڑے کاموں کی بڑی تفصیل کا نام ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کو سینکڑوں سال پہلے بادشاہ کا ذکر تو ملتا ہے لیکن اس دور کے کسی موچی، لوہار یا دہقان کے بارے میں ذکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔
آج کل کرونا کے باعث اموات ہو رہی ہیں۔ فیس بک اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارم پر لوگ اپنے پیاروں کی فوتگی کے اعلانات اور ذکر کرتے پائے جا رہے ہیں اور یہ اعلانات خلاف معمول ہیں۔ ان اعداد و شمار کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ سرکار کے اعداد و شمار سے زیادہ ہی ہوں گے۔ ایک لحاظ سے اس دور میں عام شہریوں کی تاریخ قلم بند ہو رہی ہے۔
بہت سے لوگ مرحومین کے ساتھ اپنی آخری بات چیت کا بھی ذکر کر ہے ہیں۔ ظاہر ہے مرنے والوں کے پیاروں کے لئیے ان کے کہے آخری لفظ زندگی بھر کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ موت سے کچھ ہی لمحے پہلے دنیا کی مشہور ہستیوں نے کیا کہا؟ شاید بہت کم لوگوں نے اس کے بارے میں پڑھا ہو گا۔ مثلاً بانی پاکستان محمد علی جناح کے آخری الفاظ اس وقت ادا ہوئے جب ان کے معالج نے کہا، ’ہم نے آپ کو انجیکشن لگا دیا ہے جس سے توانائی آئے گی اور انشاءاللہ آپ جئیں گے۔‘
اس پر جناح صاحب نے صرف اتنا کہا، ’نہیں، میں نہیں!‘
یہ اس دنیا میں ان کا آخری جملہ تھا۔
علامہ اقبال کے نوکر علی بخش کے مطابق شاعرِ مشرق نے مرتے وقت کہا، ’اللہ میرے یہاں درد ہو رہا ہے،‘ اور اس کے ساتھ ہی ان کی روح پرواز کر گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسلمان حکمران اورنگزیب عالمگیر کے آخری لفظ تھے، ’کسی نے اپنی روح کو نکلتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ میری روح نکل رہی ہے۔‘
امریکہ میں غلامی مخالف تحریک کے علم بردار جان براؤن کو تختہ دار پر چڑھاتے ہوے پوچھا گیا کہ ’آپ تھکاوٹ تو محسوس نہیں کر رہے؟‘
اس پر انہوں نے فقط اتنا کہا، ’نہیں! لیکن مجھ سے غیر ضروری انتظار مت کروائیے۔‘ انہیں فوراً ہی دار پر لٹکا دیا گیا۔
بدھا نے مرنے سے پہلے کہا، ’ہر چیز میں فنا موجود ہے۔‘
انقلاب فرانس کے ہنگاموں میں ملوث کورڈے کو جب مارا جا رہا تھا تو اس سے گلوٹین چھپا دی گئی۔ اس نے کہا، ’مجھے دکھاؤ تجسس میرا حق ہے اس سے پہلے میں نے موت کی سزا نہیں دیکھی۔‘
انسانی ارتقا کا نظریہ دینے والے ڈارون نے موت سے پہلے کہا، ’میں اکیلا تو موت سے ڈرنے والا نہیں۔‘
ناول نگار چارلس ڈکنز کو جب اٹھایا جا رہا تھا، اس نے کہا، ’بس اب زمین پر رکھ دو‘ اور مر گئے۔
سکندر اعظم سے مرتے وقت پوچھا گیا کہ اس کا جانشین کون ہو گا تو اس نے کہا، ’مضبوط ترین کے نام،‘ اور جان دے دی۔
معروف مصور لیونارڈو دا ونچی نے موت سے قبل کہا، ’خالق اور مخلوق مجھ سے خفا ہے کہ میں اس معیار پر نہیں اترا جس پر اتر سکتا تھا۔‘
شرلاک ہومز کے مصنف آرتھر کونن ڈاؤئل نے مرتے وقت بیوی کی طرف دیکھ کر کہا، ’تم حیرت انگیز ہو۔‘
امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کے آخری الفاظ تھے، ’میرے جانے کا وقت ہو گیا ہے۔ آپ سب کا بہت شکریہ جو میرا خیال رکھا، میں آپ کو مزید تکلیف نہیں دینا چاہتا۔ مجھے خاموشی سے جانے دیں میں مزید نہیں رک سکتا۔‘
تاتار حکمران تیمور لنگ نے مرنے سے پہلے کہا، ’موت چیخنے چلانے سے ٹل نہیں سکتی۔‘
سقراط نے زہر پینے سے پہلے اپنے شاگرد کی طرف دیکھ کر کہا، ’کریٹو، مجھے ایسکلی پی ایس کا مرغا دینا ہے۔ تمہیں یاد ہے نا کہ قرض چکانا ہے؟‘
روم کے بادشاہ نیرو نے کہا تھا، ’آہ، یہ دنیا میری شکل میں کتنا بڑا فنکار کھو رہی ہے۔‘ یہ وہی نیرو ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب روم جل رہا تھا وہ بانسری بجا رہا تھا۔
جرمن مصنف گوئٹے نے آخری سانس لیتے وقت کہا تھا، ’مزید روشنی!‘
گاندھی کے آخری الفاظ تھے، ہے رام!‘
جب ابراہیم لنکن بیوی کا ہاتھ تھامے تھیئٹر میں بیٹھا تھا تو بیوی نے پوچھا، ’لوگ کیا سوچ رہے ہوں گے۔‘ اس پر لنکن نے کہا، ’لوگ کچھ نہیں سوچ رہے ہوں گے۔‘ تبھی اسے قاتل نے گولی ماری اور وہ دم توڑ گیا۔
جانے والے آخر وقت کیا سوچتے ہیں؟ انہیں کیا دکھائی دیتا ہے؟ وہ آخری احساس کیا ہوتا ہے جس کے بعد ایک جیتا جاگتا وجود بے حس پڑا رہتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج تک حل طلب ہیں۔ طب کی دنیا کے معتبر نام جارج ملر نے مرتے ہوئے کہا، ’ڈاکٹروں کو بتا دو کہ میرے لئیے مرتے آدمی کے خیالات قلم بند کرنا ناممکن ہے۔ یہ بہت دلچسپ ہوتا اگر میں لکھ دیتا لیکن نہیں کر سکتا۔ میرا وقت آ چکا ہے۔ امید ہے میرے بعد آنے والے ساتھی میرے اس کام کو جاری رکھیں گے۔‘