انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان میں پنشنرز کی تعداد کم کرنے کے لیے سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت پانچ سال تک بڑھانے کی شرط رکھی ہے۔
تاہم ملک کے بیشتر سرکاری ملازمین اور طلبہ تنظیموں نے اس شرط کو بے سود قراردیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں اس شرط پر عمل درآمد سے نہ صرف بے روزگاری بڑھے گی بلکہ سرکاری ملازمین کی ترقیوں کا عمل بھی سست ہوجائے گا۔
دوسری جانب حکومت کے مطابق اس شرط پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ستمبر میں کیا جائے گا کیونکہ اس وقت تک وہ نئی شرائط تسلیم کرنے کی پابند نہیں۔
واپڈا ایمپلائز یونین کے صدرعبدالطیف نظامانی کہتے ہیں کہ ملک میں پہلے ہی نوکریاں ملنے کی بجائے اداروں سے برطرفیاں کی جارہی ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمتوں کا تحفظ نہیں، ایسے میں سرکاری ملازمتوں کے دروازے بھی لوگوں پر بند ہوجائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبدالطیف نظامانی کے مطابق: 'پنشن تو آدھی تنخواہ کے برابر ہوتی ہے جبکہ ملازمت میں پانچ سال کی توسیع کے دوران پوری تنخواہیں اور مراعات دینا ہوں گی، اس سے اخراجات تو کم نہیں ہوں گے البتہ بے روزگاری ضرور بڑھ جائے گئی۔ جہاں 50 فیصد لوگ خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ان میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔'
عمار نے مزید کہا کہ کسی بھی ریاست میں سوشل ڈھانچہ سب سے اہم ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں تعلیم، صحت اور صاف پانی سمیت بنیادی سہولیات ہی ناپید ہیں۔ 'آئی ایم ایف نے کبھی نہیں پوچھا کہ تیرہویں بار قرضہ لیا جا رہا ہے، جو پہلے لیا تھا وہ کہاں استعمال ہوا؟'
عمار کے مطابق معیشت بہتر کرنے کے لیے سوشل سٹرکچر متاثر کرنے کی بجائے اداروں کے غیر ضروری بجٹ میں کمی لائی جائے۔ 'اگر آئی ایم ایف کے دباؤ پر سرکاری ملازمت کی مدت میں اضافہ کیا گیا تو تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مستقبل کیا ہوگا، پہلے ہی بے روزگاری انتہا کو پہنچ چکی ہے، ایسے میں سرکاری نوکریاں بھی کم ہوگئیں تو نوجوانوں کے حالات کیا ہوں گے، اس لیے حکومت کو یہ شرط مسترد کرنی چاہیے۔'
معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر سلمان شاہ نے اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'پنشنرز کی ادائیگیوں کا مسئلہ معیشت کے لیے بڑا اہم ہے۔ آئی ایم ایف کی شرط کے علاوہ بھی پنشنرز کی ادائیگیاں بجٹ میں رکھنے سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ایک دن بجٹ کا زیادہ حصہ پنشنز میں چلا جائے گا، کیونکہ سالانہ لاکھوں پنشنرز کو اربوں روپے پنشن کی مد میں ادا کرنا پڑتے ہیں۔'
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کے متبادل کوئی تجویز ہوسکتی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ 'یہ تجویز کافی عرصہ سے ناگزیر سمجھی جا رہی ہے کہ پنشن فنڈ الگ سے قائم کیا جائے جس میں متعلقہ محکموں سے پنشن کی مد میں فنڈز منتقل ہوتے رہیں تاکہ ادائیگیاں بھی ہوتی رہیں اور اسے سالانہ بجٹ سے الگ کیا جائے۔'
انہوں نے کہا کہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جس طرح اب سرکاری ملازمتوں میں بھی زیادہ تر کنٹریکٹ پر بھرتیاں ہوتی ہیں ان پر پنشن کی ادائیگی لازم نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کی اس شرط پر ابھی تک پارٹی یا حکومتی سطح پر غور نہیں کیا گیا کیونکہ آئی ایم ایف کی نئی شرائط پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ستمبر تک کرنا ہوگا۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ آسان فیصلہ نہیں، اس پر متعلقہ محکموں اور دیگر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے۔ 'یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حکومت یہ شرط تسلیم کرنے کی بجائے کوئی اور متبادل تجویز پیش کر دے، لیکن جو بھی ہوگا وہ پارٹی قیادت کی جانب سے مکمل غورو خوض کے بعد کیا جائے گا اور جب یہ معاملہ کمیٹی کے سامنے آیا تو اس پر ملکی مفاد کے مطابق فیصلہ کریں گے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی پالیسی واضح ہے کہ جو پالیسی عوامی مفاد میں ہوگی، وہی لاگو کی جائے گی۔
ساتھ ہی انہوں نے ایک پروگرام میں کہا کہ ان کے خیال میں نئے روزگار کے مواقعے پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ مدت ملازمت میں اضافہ ہونا چاہیے۔