آج کراچی میں مولانا مفتی تقی عثمانی کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ان کا محافظ اور ڈرائیور زخمی ہوگیا ہے۔ عینی شاہدوں کے مطابق حملہ آوروں نے چاروں طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی لیکن مفتی تقی عثمانی حملے میں مخفوظ رہے۔ واقعے کے بعد پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔
فائرنگ کا یہ واقعہ کراچی کے علاقے نرسری میں پیش آیا جہاں مولانا مفتی تقی عثمانی کی دو گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ فائرنگ میں ایک گاڑی میں موجود سکیورٹی گارڈ ہلاک اور ڈرائیور زخمی ہوگیا، جبکہ مولانا دوسری گاڑی میں ہونے کے باعث محفوظ رہے۔
اس سلسلے میں جامع الرشید کے ترجمان مولانا عبدالودود نے نمائندہ انڈپینڈنٹ کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ مولانا تقی عثمانی اپنے اہلخانہ کے ہمراہ تھے اور وہ لوگ دو گاڑیوں میں سوار تھے۔ پچھلی گاڑی میں گارڈز تھے جبکہ اگلی گاڑی میں مولانا صاحب سوار تھے۔ حملہ آور نے چاروں طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ فائرنگ کے نتیجے میں مفتی تقی عثمانی کے گارڈز اور ڈرائیور کو گولیاں لگیں۔ ڈرائیور زخمی جبکہ پچھلی گاڑی میں سوار دو گارڈز ہلاک ہو گئےـجمعیت علمائے اسلام کے صوبائی امیر مولانا گل نصیب جنرل سیکرٹری مولانا شجاع الملک اور سیکرٹری اطلاعات عبدالجلیل جان نے مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب پر قاتلانہ حملے اور 2 افراد کی ہلاکت پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے اسے حکمرانوں کے ماتھے پر بدنما دھبہ اور غفلت کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مفتی تقی عثمانی نے زندگی بھر قرآن وحدیت کی تعلیم اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے کوششیں کیں انہوں نے کہا کہ آج کا حکمران مذہبی قائدین سے سکیورٹی گارڈز واپس لے کر ان کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کررہی ہے۔ انہوں نے ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے ہلاک شدگان کے خاندانوں سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
مفتی تقی عثمانی کون ہیں؟
75 سالہ مفتی تقی عثمانی مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔
مفتی تقی عثمانی عالم اسلام کے مشہور عالم اور جید فقیہ ہیں۔ مفتی تقی عثمانی 1980ء سے 1982ء تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982ء سے 2002ء تک عدالت عظمی پاکستان میں شریعہ اپیل بینچ کے جج رہے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ کے نائب صدر اور جامعہ دارلعلوم، کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ مفتی تقی عثمانی آٹھ مختلف اسلامی بینکوں میں بحیثیت مشیر بھی کام کر رہے ہیں۔
انھوں نے ابتدائی تعلیم مرکزی جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کراچی میں حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب کے قائم کردہ مدرسہ اشرفیہ میں حاصل کی اور پھراپنے والد مفتی محمد شفیع عثمانی کی نگرانی میں دار العلوم کراچی سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی، جس کے بعد 1961 میں اسی ادارے سے ہی فقہ میں تخصص کیا۔
مفتی تقی عثمانی تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔ مفتی تقی عثمانی دار العلوم کراچی میں صحیح بخاری، فقہ اور اسلامی اصول معیشت پڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ملکی و غیر ملکی جامعات مفتی تقی عثمانی کے خطبات کا انتظام کرتی رہتی ہیں۔ مفتی تقی عثمانی چند برس سے جامعہ دار العلوم کراچی میں درس بخاری بھی دے رہےہیں۔
پہلے مولانا ایک فقیہ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اب دنیا انہیں ایک محدث کی حیثیت سے بھی جانتی ہے، یہی وجہ ہے کہ علما نے مفتی تقی عثمانی کو شیخ الاسلام کا لقب عطا کیا ہے۔
مفتی تقی عثمانی بطور جج بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی جامعہ کراچی سے وکالت کی سند حاصل کرنے کے بعد طویل عرصے کے لیے پاکستان کے عدالتی نظام سے وابستہ ہو گئے۔ مفتی تقی عثمانی 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی شریعت ایپلیٹ بینچ کے منصف اعظم اور پاکستان کے قائم مقام منصف اعظم بھی رہے۔ مفتی تقی عثمانی نے بحثیت جج کئی اہم فیصلے کیے جن میں سود کو غیر اسلامی قرار دیکر اس پر پابندی کا فیصلہ سب سے مشہور ہے۔ 2002
میں اسی فیصلے کی پاداش میں سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے مفتی تقی عثمانی کو مفتی تقی عثمانی کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔
مفتی تقی عثمانی کو کس سے خطرہ ہے؟
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے سربراہ عامر رانا نے کہا کہ ’مفتی تقی عثمانی جدید سوچ کے حامل ہیں۔ ممکنہ طور پر اُن کی سوچ سے اختلاف رکھنے والے اور شدت پسندانہ سوچ سے تعلق رکھنے والے اندرونی دشمن ہی اُن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں لیکن مفتی تقی عثمانی نے کبھی کسی کا نام نہیں لیا‘ـ
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مفتی تقی عثمانی نے خود کو ملنے والی دھمکیوں سے آگاہ کیا تھا مگر انہوں نے یہ واضح نہیں کیا تھا کہ دھمکیاں کہاں سے ملیں۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ نے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔
جے یو آئی کے راہنما قاری عثمان کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے حکم پر علماء سے سکیورٹی واپس لے لی گئی تھی اور ’وفاق المدارس نے کئی بار شکایت کی لیکن سنا نہیں گیا۔‘
کیا حملہ فرقہ واریت کی سازش ہے یا کچھ اور؟
حملے کے بعد ڈی آئی جی ایسٹ عامر فاروق نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ حملہ فرقہ واریت کی سازش نہیں بلکہ کراچی اور پاکستان کے امن کو سبوتاژ کرنے کے کی کوشش ہے۔
ڈی آئی جی ایسٹ کے بیان کے باوجود سوشل میڈیا پر اس حملے کی پیچھے مختلف عوامل پر بحث ہو رہی ہے۔
طاہر اکبر نے لکھا کہ یہ حملہ فرقہ وارانہ فسادات اور کراچی کے امن کو تباہ کرنے کی مذموم کوشش ہے۔
وکیل بابو کے نام سے ٹوئٹر پر موجود طیب ایڈووکیٹ سمجھتے ہیں کہ اس حملے کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ ہے۔
فیصل نے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ سے سوال کیا کہ پی ایس ایل میچز کا کراچی میں کامیابی سے انعقاد کرانے کا سہرا اپنے سر لے تھے مگر کیا اب وہ جواب دیں گے کہ کیسے شہر میں باآسانی لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں؟