بجٹ دستاویزات میں پیش کیے گئے بھاری بھرکم اعداد و شمار شہریوں کے لیے کوئی زیادہ دلچسپی کا سامان نہیں رکھتے۔ عام آدمی ہر سال آئندہ مالی سال کے بجٹ کا انتظار صرف یہ جاننے کے لیے کرتا ہے کہ کیا سستا ہو گا اور کیا مہنگا۔
حکومت ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی شرح کم یا زیادہ کر کے یا نئے محصولات متعارف کروا کر عوام کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ جو عام طور پر روزمرہ استعمال کی اور دوسری اشیا کی قیمتوں میں کمی بیشی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ملک میں وفاقی سطح پر اپنے پہلے دور حکومت کا دوسرا بجٹ برائے مالی سال 2020۔21 جمعے کو پیش کیا۔
قومی اسمبلی میں پیش کی گئی بجٹ تجاویز میں حکومت نے کوئی نیا ٹیکس تو نہیں لگایا تاہم کئی ایک ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی شرح میں ردو بدل ضرور کیا ہے۔ جس سے کچھ چیزیں سستی اور دوسری کئی مہنگی ہوں گی۔
تاہم معاشی تجزیہ کاروں کے خیال میں تحریک انصاف حکومت کے لیے چیزوں کی قیمتیں کم کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔
معاشی امور پر لکھنے والے صحافی احتشام الحق کا کہنا تھا: اہم بات یہ ہے کہ جو ڈیوٹیز اور ٹیکسز کم کیے گئے ہیں ان کا اطلاق کون کروائے گا؟
انڈیپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا پاکستان میں قیمتیں بڑھائی بڑے شوق سے جاتی ہیں لیکن جب کم کرنے کی باری آتی ہے تو لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے۔
اس سلسلہ میں انہوں نے حال ہی میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے پٹرول کی قیمتیں کم کر دیں لیکن اس کا فائدہ عام آدمی تک نہیں پہنچ سکا۔
معاشی ماہر خرم شہزاد کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ حکومت نے بعض ٹیکسوں کو ریشنالائز کرنے کی کوشش تو کی ہے۔ تاہم یہ کوشش کافی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ شاید کچھ عرصہ بعد یا بجٹ پر بحث کے دوران ہی ان چیزوں میں تبدیلی دیکھنے میں آسکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کر کے بھی ایک بہت بڑی آبادی کو بجٹ کے ثمرات سے دور رکھا گیا ہے۔
احتشام الحق نے کہا کہ مہنگائی کم کرنے کا بہترین طریقہ سود کی شرح میں کمی ہے۔ جو حکومت نے نہیں کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو آسانیاں فراہم کر کے روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں تو اس سے بھی مہنگائی کے زور کو توڑا جا سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چیزوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے سے متعلق زیادہ کردار صوبائی حکومتوں کا ہے۔
تاہم انہوں نے اقرار کیا کہ دور حاضر میں پاکستان میں حکومتوں کے پاس ایسے ذرائع موجود نہیں ہیں جن سے کھلے بازاروں میں قیمتوں پر چیک رکھا جا سکے۔
اس تحریر میں ہم بجٹ کی دستاویزات کی مدد سے جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ آئندہ مالی سال کے دوران پاکستان میں کون سی اشیا سستی ہوں گی اور کن چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
کیا کچھ سستا ہو گا؟
1۔ پاکستان میں تیار ہونے والے موبائل فونز کی قیمتیں سستی ہونے جا رہی ہیں۔
2۔ آئندہ مالی سال کے دوران موٹر سائیکل، رکشہ وغیرہ کی قیمتوں میں بھی کمی ہو گی۔
3۔ ایل ای ڈی لائٹس بھی آئندہ مالی سال کے دوران سستی ہونے کا امکان ہے۔
3۔ کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ۔19 سے متعلق 61 اشیا پر جون میں ختم ہونے والے کسٹم ڈیوٹی کے استثنیٰ کو مزید تین ماہ کے لیے جاری رکھا جائے گا۔
4۔ کینسر اور کرونا وائرس کی تشخیصی کٹس کی درآمد پر ہر قسم کی ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں کی چھوٹ کی تجویز ہے۔ جس کی وجہ سے ان اشیا کی درآمد میں آسانی اور قیمتوں میں کمی واقع ہو گی۔
5۔ وزیر اعظم کے کووڈ۔19 ریلیف پیکج کے تحت خوردنی تیل اور تیل کے بیجوں پر اے سی ڈی ختم کرنے کا فیصلہ۔ جس سے ان اشیا کی قیمتوں میں کمی ہو گی۔
6۔ میٹابولک عوارض کے شکار بچوں کے لیے در آمد ہونے والی مخصوص خوارک کی قیمتیں کم ہوں گی کیونکہ حکومت نے ان تمام اشیا پر ٹیکس اور ڈیوٹیاں ختم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
7۔ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی دو روپے فی کلو گرام سے کم کر کے پونے دو روپے کرنے کی تجویز ہے۔ جس سے سیمنٹ کی قیمت میں کمی کا امکان ہے۔
8 ۔ بیرون ملک سے درآمد ہونے والے صنعتی خام مال میں شامل 20 ہزار اشیا پر کسٹم ڈیوٹی مکمل طور پر ختم کر دی گئی ہے۔ اس سے پاکستان میں کپڑے، ربڑ اور پلاسٹک وغیرہ کی صنعتوں میں تیار ہونے والی کئی اشیا کی قیمتوں میں کمی کے علاوہ روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔
اس کے نتیجہ میں جن اشیا کی قیمتوں میں کمی ہو سکتی ہے ان میں بٹن، بکرم، سرنجز اور ڈرپ سیٹ، وائر راڈ، انٹر نیٹ کیبل لیننگ سٹیسنز میں استعمال ہونے والا سامان، مشروبات کے ٹنز، تیار خوراکی اشیا کی پیکنگ میں استعمال ہونے والی اشیا شامل ہیں۔
9۔ ریڈی ٹو یوز سپلیمنٹری فوڈز کے اجزا کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی ختم کر دی گئیں۔
10۔ لیشمینئیسز بیماری کی دوائی کی درآمد پر بھی کسٹم ڈیوٹی کا خاتمہ۔ جس سے اس زندگی بچانے والی دوائی کی قیمت کم ہو گی۔
11۔ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کی صورت میں ودہولڈنگ ٹیکس میں کمی کی گئی ہے۔
12۔ شادی ہالوں پر ایڈوانس ٹیکس کا خاتمہ۔
13۔ کیبل آپریٹرز اور الیکٹرانک میڈیا پر ایڈوانس ٹیکس کا خاتمہ۔ ماہانہ کیبل کا بل کم ہو سکتا ہے۔
14۔ بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات بنک سے نکالنے پر ودہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کی تجویز ہے۔
کیا کچھ مہنگا ہو گا؟
1۔ تمباکو نوشی کے لیے استعمال ہونے والی اشیا پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 65 سے بڑھا کر سو فیصد کر دی گئی ہے۔ جس سے سگریٹ اور سگار وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2۔ سگریٹ کے فلٹرراڈز کی درآمد پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کر کےقیمت زیادہ کرنے کی تجویز ہے۔
3۔ الیکٹرک سگریٹ میں استعمال ہونے والے مائع کی قیمت میں بھی اضافہ کی تجویز ہے۔
4۔ نوجوانوں کے پسندیدہ انرجی ڈرنکس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 25 فیصد کر کے ان کی قیمتوں میں اضافہ کی تجویز ہے۔
5۔ ڈبل کیبن پک اپ پر پہلی مرتبہ ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ جس سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ کستان میں بننے والی ان فور بائی فور گاڑیوں پر ساڑھے سات فیصد اور بیرون ملک سے درآمد پر 25 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگائی جائے گی۔
6۔ وفاقی دارالحکومت میں دو سے چار کنال کے فارم ہاوسزکی تعمیر پر لگژری ٹیکس لگانے کی بھی تجویز ہے۔