پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے صحرائے تھر کے علاقے نگرپارکر کے نزدیک راڑکوا نامی گاؤں میں پینے کے پانی کے لیے کنواں کھودنے کے دوران چار مقامی افراد دب کر ہلاک ہوگئے۔
پی ایس 55 تھرپارکر ٹو سے منتخب ہونے والے رکن سندھ اسمبلی محمد قاسم سومرو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اس واقعے کی تصدیق کی۔
انہوں نے بتایا: 'یہ واقعہ ہفتے کی دوپہر نگرپارکر کے قریب پیش آیا، جہاں کنویں کی کھدائی کرنے والے چار مزدور مٹی میں دب جانے سے ہلاک ہوگئے۔'
قاسم سومرو کے مطابق: 'کچھ عرصہ قبل بھی نگرپارکر میں ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا، جس کے بعد ضلعی حکومت نے اس علاقے میں کنویں کھودنے پر پابندی عائد کردی تھی، مگر اس کے باجود پانی کی قلت کے باعث لوگ اکثر کنویں کھودتے رہتے ہیں۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک سوال کے جواب میں محمد قاسم سومرو نے بتایا کہ تھر کی کل آبادی 18 لاکھ ہے جن میں مٹھی اور اسلام کوٹ سے متصل علاقوں کے سات سے آٹھ لاکھ لوگوں کو دریائے سندھ کا میٹھا پانی پائپ لائن کے ذریعے دیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ تھرپارکر کے ضلعی ہیڈکوارٹر شہر مٹھی کی متعدد کالونیوں کے رہائشی گذشتہ کئی دنوں سے پانی کی عدم فراہمی پر احتجاج کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے محمد قاسم سومرو کہتے ہیں: 'میں نے خود پانی کی تقسیم کے لیے ایک جامع پلان بنایا ہے اور جلد ہی تھر کے باقی لوگوں کو پانی مہیا کیا جائے گا۔'
تھر کے رہائشی ادیب اور شاعر خلیل کمبھر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نگرپارکر صحرائے تھر میں وہ علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ پانی کی قلت رہتی ہے، خاص طور پر جون اور جولائی کے مہنیوں میں تو یہ قلت شدت اختیار کرجاتی ہے۔ اس لیے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کنویں کھودتے ہیں اور کھدائی کے دوران اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، جن کے دوران اب تک کئی لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
لیکن قدرتی معدنیات اور لائیو سٹاک کی دولت سے مالا مال اس خطے کے لوگوں کو حکومت پینے کا پانی بھی مہیا نہ کرسکی۔ تھر کے لوگ گذشتہ دو سال سے ٹوئٹر پر #TharNeedsWater اور #TharNeedsWaterCanal کا ہیش ٹیگ چلا رہے ہیں۔ جسے سندھ حکومت کے حامی 'پاکستان پیپلز پارٹی مخالف' اور 'جھوٹی پروپیگنڈا مہم' قرار دے رہے ہیں۔
اس مہم میں تھر کے لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ تھر کے پانی کے مسئلے کا واحد اور دیرینہ حل یہ ہے کہ تھر کو پانی کی ایک نہر دی جائے جیسے بھارت کے صحرا راجستھان میں وہاں کی حکومت نے اندرا گاندھی کینال بناکر ہمیشہ کے لیے پانی کا مسئلہ حل کردیا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ تھر کو پانی کی نہر کیوں نہیں دی جاتی؟ محمد قاسم سومرو نے الٹا سوال کر ڈالا کہ کس جگہ سے نہر کھود کر تھر کو کینال دیا جائے؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'سندھ کے گُدو بیراج سے نگرپارکر تک ساڑھے چار سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے، اتنی بڑی نہر کے لیے رقم کہاں سے آئے گی؟'
واضح رہے کہ جب عمرکوٹ کے قریب پاکستانی فوج کی چھاؤنی کو پانی چاہیے تھا تو نارا کینال سے تھر کینال نامی ایک نہر کھودی گئی تھی، اسی طرح جب تھر کول پروجیکٹ میں کوئلے کی کھدائی کے لیے پانی کی ضرورت تھی تو چند ماہ میں پائپ کے ذریعے پانی فراہم کردیا گیا تھا۔ اس حوالے سے سوال کے جواب میں محمد قاسم نے کہا کہ 'یہ بات ٹھیک ہے اور وہ جلد ہی ایک منصوبہ بناکر سندھ حکومت کو پیش کریں گے تاکہ تھر کے پانی کا جلد ہی کوئی مستقل حل نکالا جائے۔'
اپنے منصوبوں کی خود تعریفیں
جب بھی تھر میں پانی کی قلت اور قحط سالی کے باعث بچوں کی اموات ہوتی ہیں تو لوگ پیپلز پارٹی کی حکومت پر تنقید کرتے ہیں، اسی تنقید کے بعد سندھ حکومت نے تھر میں کئی منصوبے بنائے جس پر صوبائی حکومت کو ناز بھی ہے اور اکثر اشتہاری مہم میں ان منصوبوں کا ذکر بھی کیا جاتا ہے، مگر بعد میں یہ منصوبے ناکام ثابت ہوئے۔
ان میں سب سے بڑا منصوبہ، جس کا ذکر بلاول بھٹو زرداری ہمیشہ فخر سے کرتے ہیں، ایشیا کے سب سے بڑے آر او پلانٹ کا منصوبہ تھا، جس کے تحت تھر میں ساڑھے سات سو آر او پلانٹس لگانے تھے، جس پر آٹھ ارب روپے سے زائد کی رقم لگائی گی، مگر اس وقت تھر کے ان ساڑھے سات آر او پلانٹس میں سے اکثریت مکمل طور پر بند ہیں۔
محمد قاسم سومرو نے اعتراف کیا کہ آر او پلانٹس لگانا ایک غلط منصوبہ تھا، جو تھر میں پانی کی قلت کو ختم نہیں کرسکتا۔
اس کے علاوہ بھی نگرپارکر میں دس ارب سے زائد رقم خرچ کرکے کئی چھوٹے ڈیم بنائے گئے اور دعویٰ کیا گیا کہ ان ڈیموں کی تعمیر کے بعد علاقے میں پانی کی قلت ختم ہوجائے گی، مگر دس سالوں میں کئی بار بارش ہونے کے باجود غلط منصوبہ بندی سے بنائے گئے ان ڈیموں میں سے ایک بھی مکمل طور پر نہیں بھر سکا۔
تھر: معدنیات کی جنت
جنوب مشرقی سندھ میں بھارتی سرحد سے متصل 20 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا صحرائے تھر گذشتہ کئی سالوں سے شدید قحط سالی، پانی کی قلت، نولود بچوں کی اموات، خودکشیوں اور خشک سالی سے پریشان لوگوں کی بیراجی علاقوں کی طرف نقل مقانی سے متعلق خبروں کے باعث میڈیا میں موضوع گفتگو رہا ہے۔
صحرائے تھر معدنیات سے مالامال ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں ایک سو سے زائد نمک کی کانیں ہیں جن میں صرف کراچی شہر کے لیے ہر روز 80 ٹن نمک بھیجا جاتا ہے۔
نگرپارکر کے نزدیک ایک خاص قسم کی مٹی 'کاولن' جسے مقامی زبان میں چینی مٹی کہا جاتا ہے کے بڑے ذخائر ہیں۔ پاکستان میں یہ مٹی صرف خیرپختونخوا کے ضلع سوات اور سندھ کے صحرائے تھر میں پائی جاتی ہے جس کے ایک کلوگرام کی قیمت تین ہزار روپے بتائی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ نگرپارکر میں وسیع پیمانے پر پھیلے کارونجھر پہاڑی سلسلے میں رنگ برنگے گرینائٹ کے پتھر پائے جاتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق کارونجھر میں سرمئی گرینائٹ کے 11 ہزار ٹن، گلابی گرینائٹ کے چار ہزار ٹن اور 240 ٹن ایڈاملائیٹ گرینائیٹ کے ذخائر موجود ہیں۔
گرینائیٹ کے ان ذخائر کو نکالنے کے لیے دیگر کئی کمپنیوں کے علاوہ پاکستانی فوج کے ذیلی ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن یعنی ایف ڈبلیو او کو بھی ٹھیکہ دیا گیا ہے۔
صحرائے تھر میں 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر بھی موجود ہیں، جنہیں 14 بلاکس میں بانٹا گیا ہے، جس میں صرف ایک بلاک، بلاک نمبر ٹو میں تین اعشاریہ ٹن کوئلا سالانہ نکالنے کے لیے سوا ارب امریکی ڈالر کی لاگت سے سندھ اینگرو کول ماننگ کمپنی کام کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ صوبے سندھ کے کل مویشیوں کا 60 فیصد سے زائد تعداد صرف صحرائے تھر میں ہے۔ محکمہ لائیو سٹاک سندھ کے مطابق صحرائے تھر میں گائے، اونٹ، بھیڑوں اور بکریوں سمیت ساٹھ لاکھ کی آبادی ہے۔