سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں، ماہرین قانون اور ماہرین علم و ادب کی جانب سے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق سماعت کے دوران حکومتی وکیل فروغ نسیم کے ان بیانات کی مذمت کی گئی ہے، جس میں انہوں نے غیر آئینی، عورت بیزار اور صنفی امتیاز پر مبنی الفاظ استعمال کیے ہیں۔
سول سوسائٹی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق: 'جب عدالت عظمیٰ میں فروغ نسیم سے استفسار کیا گیا کہ وہ کس قانون کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے، جو کہ ایک ٹیکس دہندہ شہری بھی ہیں، نام پر موجود اثاثوں کو ان کی ذمہ داری قرار دے رہے ہیں تو ان کی جانب سے کسی قانونی دلیل کی بجائے قرآن کی آیات کا سہارا لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستانی قوانین کے تحت کوئی خاتون آزاد قانونی حیثیت کی حامل نہیں ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی قانونی شواہد پیش نہیں کیے اور نہ ہی اپنا بیان واپس لیا۔'
سول سوسائٹی کی جانب سے اسلام آباد میں جاری کردہ بیان میں فروغ نسیم کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے اسے 'قرآنی آیات کی من مانی تشریح، سیاق و سباق کے بغیر اور غلط ترجمے کے ساتھ ایسی دلیل کے طور پر استعمال' قرار دیا گیا جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
سول سوسائٹی کی جن تنظیموں اور کارکنوں نے اس بیان کی حمایت کی ہے ان میں تحریک نسواں، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، شیما کرمانی، حارث خلیق، طاہرہ عبداللہ اور بےنظیر جتوئی شامل ہیں۔
انگریزی زبان میں جاری اس بیان کے مطابق: 'فروغ نسیم کی جانب سے جس قرآنی آیت کو بنیاد بنایا گیا ہے وہ خواتین کی قانونی خود مختاری کو نہ محدود کرتی ہے اور نہ ہی اسے ختم کرتی ہے۔ تمام اسلامی مکاتب فکر اس بات پر متفق ہیں کہ خواتین اپنے مالی اور معاشی معاملات پر قانونی عملداری رکھتی ہیں۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فروغ نسیم پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کو گمراہ کر کے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا غلط استعمال کیا ہے اور عدالت کو پاکستانی خواتین کی قانونی حیثیت کے حوالے سے گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
سول سوسائٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ 'محمڈن لا کے نامور سکالر جسٹس سید امیر علی نے اپنی قانون کی کتاب میں لکھا ہے کہ جب فریق ایک دوسرے سے معاہدہ کریں تو وہ اپنی اپنی حیثیت میں آزاد ہوتے ہیں۔ اسی طرح خاتون کی قانونی حیثیت اپنے خاوند کی قانونی حیثیت کے تابع نہیں ہے، وہ اپنی دولت اور جائیداد پر مکمل آزادانہ حق رکھتی ہے اور ضرورت پڑنے پر اپنے شوہر کے خلاف قانونی کارروائی بھی کر سکتی ہے۔'
بیان کے مطابق کوئی بھی قانونی ماہر چہ جائیکہ سپریم کورٹ کا وکیل جو کہ حکومت کی نمائندگی کر رہا ہو، ان قانونی حقوق سے ناواقف نہیں ہو سکتا اور نہ ہی فقہ سے انجان ہو سکتا ہے۔ 'فروغ نسیم کیا بھول چکے ہیں کہ غیرمسلم خواتین بھی پاکستان کی شہری ہیں اور ان کو بھی پاکستانی قوانین اور آئین کے تحت حقوق حاصل ہیں۔ ان کی جانب سے سپریم کورٹ میں دیے جانے والے ان دلائل کی کوئی قانونی یا مذہبی حیثیت نہیں ہے اور یہ سپریم کورٹ کو گمراہ کرکے معاملے کو مشکوک بنانے کی ایک سوچی سمجھی کوشش ہے۔
سول سوسائٹی نے اپنے بیان میں یہ مطالبہ کیا ہے کہ اگلی سماعت میں فروغ نسیم اپنے ان بے بنیاد اور غیر آئینی بیانات پر عوامی طور پر معافی مانگیں اور سپریم کورٹ میں پاکستان خواتین کو حاصل قانونی اور آئینی حقوق سمیت مالی اور معاشی حقوق کو تسلیم کریں۔
اس بیان پر فروغ نسیم کا ردعمل حاصل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ دستیاب نہیں تھے۔
واقعے کا پس منظر
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اپنی اہلیہ کے اثاثے ظاہر نہ کرنے کا صدارتی ریفرنس عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔
جمعہ (12 جون) کو اس معاملے پر سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے حکومتی وکیل فروغ نسیم سے استفسار کیا تھا کہ 'صرف ایک بات بتا دیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ٹیکس ریٹرنز جمع کراتی ہیں یا نہیں۔ اگر ٹیکس رٹرنز جمع نہیں کراتیں تو جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی اہلیہ خود کفیل کیسے ہیں اور اگر جمع کرواتی ہیں تو پھر وہ خود کفیل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکس قانون تو تمام شہریوں کے لیے ہے۔'
جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ 'میری معلومات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ٹیکس ریٹرنز جمع کرواتی ہیں، لیکن سپریم جوڈیشل کونسل میں ٹیکس سے متعلق کارروائی نہیں ہوتی۔'
اس موقع پر فروغ نسیم نے ایک قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'مرد اور عورت ایک دوسرے کا لباس ہیں۔'
جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے فروغ نسیم کو مخاطب کر کے کہا کہ 'اس آیت کا شان نزول بھی بتا دیں۔ آپ کو پتہ ہی نہیں یہ آیت کیوں نازل ہوئی تھی۔'
جسٹس قاضی امین الدین نے بھی ریمارکس دیے تھے کہ 'آپ ہمیں خطرناک صورت حال میں دھکیل رہے ہیں، یہ آیت کیس سے متعلقہ نہیں ہے۔'
دوسری جانب جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ 'میاں بیوی کا تعلق اور رشتہ تو ہمیں معلوم ہے۔ اس کیس میں آپ نے بیگم کے مالی معاملات کا تعلق جج صاحب سے ثابت کرنا ہے۔'
اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا پاکستان میں بطور شہری خواتین کے حقوق نہیں ہیں؟ کیا خواتین پاکستان میں علیحدہ جائیداد نہیں خرید سکتیں؟ یہ کیسے فرض کر لیا گیا کہ خواتین سے ٹیکس کا نہیں پوچھا جائے گا۔ یہ نکتہ کیسے لے لیا کہ خاوند سپریم کورٹ کا جج ہے تو وہی جائیداد کا بتائے گا۔ کیا خاتون جج کا خاوند پنشن نہیں لے سکتا۔'
جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا تھا کہ 'قانون میں جج کا لفظ دیا گیا ہے، جس سے مراد مرد اور خاتون دونوں جج ہیں۔'
اس کیس کی آئندہ سماعت پیر (15 جون) صبح ساڑھے نو بجے ہونی ہے۔