پاکستان میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے احتساب کے واحد فورم سپریم جوڈیشل کونسل نے پیر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر دو ریفرنسز میں سے ایک خارج کرنے کا حکم دیا ہے۔
کونسل نے ریفرنس دائر کرنے والے وکیل وحید شہزاد بٹ کا موقف سننے کے بعد ریفرنس ختم کرنے کا 10صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔
کونسل نے اپنے فیصلے میں لکھا معلوم ہوتا ہے صدرِ پاکستان کو خط لکھتے کے وقت جسٹس عیسیٰ پریشانی یا ذہنی دباؤ کا شکار تھے کیونکہ ان کے سسر کی طبیعت خراب تھی جبکہ صدارتی ریفرنس میڈیا میں آنے کے بعد ان کی بیٹی بھی ذہنی تناؤ کی کیفیت میں تھیں۔
کونسل کے فیصلے میں لکھا گیا کہ انفارمنٹ وکیل ایسا کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے جس سے یہ ثابت ہو کہ جسٹس عیسیٰ نے صدر مملکت کو لکھے گئے خطوط میڈیا کو فراہم کیے۔
’ہم سمجھتے ہیں فاضل جج کی طرف سے صدر کو لکھے گئے خط اتنے سنگین نہیں کہ ان کی بنیاد پر مِس کنڈکٹ کی کارروائی کرکے سپریم کورٹ کے ایک جج کو عہدے سے ہٹایا جائے۔‘
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علویٰ نے وفاقی حکومت کی تجویز پر سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھجوایا تھا۔ ریفرنس دائر ہونے کے بعد صدر مملکت کو خط لکھنے پر جسٹس عیسیٰ کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے وکیل ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ نے آئین کے آرٹیکل 209کے تحت کارروائی کی درخواست کی تھی۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ جسٹس عیسیٰ نے سپریم جوڈیشل کونسل میں بے نامی جائیداوں سے متعلق ریفرنس کا جواب دینے کے بجائے صدر مملکت کو خط لکھ کر مس کنڈکٹ کیا، لہذا ججزکے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر ان کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
اس معاملے پر کونسل کا چوتھا اجلاس چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی زیر سربراہی میں ڈیڑھ گھنٹے سے زائد وقت تک اسلام آباد میں جاری رہا، جس میں اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان نے بھی شرکت کی۔
حکومتی ریفرنس میں جسٹس عیسیٰ پر ان کی اہلیہ کے بیرون ملک اثاثے ظاہر نہ کرنے کا الزام ہے اوران کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کونسل کی طرف سے اٹارنی جنرل اور دیگر فریقین کو نوٹس بھی جاری کیے گئے تھے۔
’ہمیشہ اچھے کی امید رکھنی چاہیے‘
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا کے خلاف کونسل میں ریفرنسز کو وکلا رہنما پہلے دن سے سازش قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں اور اس اقدام کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں گذشتہ ہفتے باقاعدہ رٹ بھی دائر کی تھی جبکہ آج جسٹس عیسی کے خلاف صدر کو خطوط لکھنے کا ریفرنس خارج ہونے پر وکلا رہنماؤں نے اطمینان کا اظہار کیا اور اسے قانون کی بالادستی کے لیےمثبت فیصلہ قرار دیا۔
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل سید امجد شاہ نے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدر مملکت کو خطوط لکھنے کا ریفرنس زیادہ موثر دکھائی دیتا تھا،لیکن جو ان کے بیوی بچوں کے اثاثہ جات نہ ظاہر کرنے کا ریفرنس ہے اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ ان الزامات کے جسٹس عیسیٰ نے موثر جوابات جمع کرائے ہیں۔
جب ان سے سوال کیاگیا کیا وکلا رہنما کونسل کی کارروائی پر مطمئن ہیں؟ تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’ہمیشہ اچھے کی امید رکھنی چاہیے، کونسل میں موجود تمام ججز اچھی طرح جانتے ہیں کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف سازش کے نتیجے میں ریفرنس دائر کیا گیا جس پر پورے ملک کی وکلا برادری میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ امید ہے جلد ہی یہ ریفرنس بھی خارج کر دیاجائے گا‘۔
انہوں نے بتایا ان ریفرنسز کے خلاف سپریم کورٹ بار کے بعد بلوچستان بار نے بھی آئینی پیٹیشن دائر کر دی ہے اور ایک، دو روز میں پاکستان بار کونسل بھی رٹ پیٹیشن دائر کر دے گی۔
انہوں نے کہا جب تک دوسرا ریفرنس خارج نہیں ہوتا وکلا برادری سپریم کوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف احتجاج کرتی رہے گی، اس معاملے میں تمام وکلا قیادت متحد ہے۔
سینئر قانون دان حامد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کونسل نے صدر مملکت کو خط لکھنے پر جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس خارج کر کے بہتر فیصلہ کیا، لیکن جو صدارتی ریفرنس ہے اس کو بھی ختم کردینا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا حکومتی ریفرنس کی کارروائی روکنے کے لیے سپریم کورٹ بار کی جانب سے دائر سپریم کورٹ میں پٹیشن کی پیروی کرنے والے پینل میں، میں بھی شامل ہوںگا۔
ان کا کہنا تھا کہ الزامات کاجائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریفرنس جسٹس عیسیٰ کو دباؤ میں لانے کے لیے بنایاگیا، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔