عملے کو ڈرانا، دھمکانا، منظور نظر لوگوں کی تنخواہوں میں اچھا اضافہ جبکہ ناپسندیدہ لوگوں کے لیے ایسے حالات پیدا کرنا کہ وہ استعفیٰ دینے پر مجبور ہو جائیں۔
یہ وہ الزامات ہیں جن کا سامنا پاکستان کے معتبر انگریزی روزنامہ ڈان کے ڈیجیٹل ورژن ڈان ڈاٹ کام کو کئی سالوں سے کرنا پڑ رہا ہے۔
ڈان ڈاٹ کام کے سابق ملازمین کے مطابق یوں تو دفتر کا موجودہ جارحانہ ماحول 2014 سے جاری ہے، جب سابق ایڈیٹر مصدق سانول کے انتقال کے بعد جہانذیب حق نے ڈان ڈاٹ کام کی باگ ڈور سنبھالی تھی، لیکن 14 جون کو ڈان ڈاٹ کام کے لیے کام کرنے والی حرمت ماجد نے ٹوئٹر پر دفتری ماحول سے متعلق شکایت کی تو سابق ملازمین نے بھی اپنے واقعات سوشل میڈیا پر شیئر کرنا شروع کر دیے۔
حرمت نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ دفتر ان سے امید کرتا ہے کہ وہ کوئی غلطی نہ کریں، چھٹی نہ مانگیں اور فضول بات پر غصہ بھی نہ آئے۔'بس ایک روبوٹ کی طرح کام کرو، مر جاؤ، خود کو مار دو، بس ہمارا کام کرو۔'
So I went through a week of hell because I had to go meet my father. I was looking after my child, working full time, trying to run errands and do as much possible, because I couldn't get time off work.
— Hurmat Majid (@MajidHurmatKhi) June 14, 2020
Someone else just got a week off for the second time on four weeks.
ان کی ٹوئٹس پر لوگوں نے ڈان ڈاٹ کام کے دفتری ماحول پر مایوسی اور ان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ ڈان ڈاٹ کام کے موجودہ ایڈیٹر پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے دفتر کا ماحول ایسا بنا دیا تھا کہ کچھ کو چھوڑ کر باقی تمام سینیئر سٹاف محض ڈیڑھ سال میں استعفے دے کر چلا گیا۔
ڈان ڈاٹ کام میں منظور نظر سٹاف کو وقت بے وقت چھٹیاں دینے جبکہ باقیوں کو اس سہولت سے محروم رکھنے کی شکایات بھی عام ہیں۔
ڈان ڈاٹ کام کے ایک اور سابق ملازم ہشام کبیر چیمہ نے ٹویٹ کی کہ وہ حرمت کے لیے پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے اس طرح کھل کر بات کر نے پر فخر بھی محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دفر کا ماحول 'انتہائی آلودہ' تھا۔
ڈان ڈاٹ کام کو خیر آباد کہہ کر الجزیرہ کے لیے کام کرنےوالے اور آگاہی ایوارڈ یافتہ ہشام نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ کس طرح ان کے ایڈیٹر (جہانزیب) انہیں کہتے تھے کہ وہ ایک انٹرن سے بھی برا کام کرتے ہیں۔
After a year of slaving away, my editor (J) told me I was 'worse than an intern'. Later that year, I won the #Agahi journalist of the year award (great confidence boost for a defeated me), moved to Al Jazeera. Good riddance, but heartbreak. I miss reporting in Pakistan
— Hasham Kabir Cheema (@HashamKabir) June 15, 2020
ڈان ڈاٹ کام کے اردو ورژن کے بلاگ ایڈیٹر اور کینسر مین مبتلا سید امتیاز احمد (آزاد قلم دار) کے کیمو تھراپی سیشن جاری تھے، جب ادارے نے انہیں دفتر آ کر کام کرنے پر مجبور کیا۔
اس پر سلمان حیدر نے ٹوئٹر پر لکھا کہ آزاد کینسر کا شکار ہوئے اور انہیں ادارے کی جانب سے کوئی طبی سہولت مہیا نہیں کی گئی بلکہ انہیں دفتر آنے پر مجبور کیا گیا
مجھے زندگی میں جن چند باتوں پر ندامت ہے ان میں سے ایک ڈان میں اپنے ایڈیٹر آزاد قلمدار سے رابطے میں نہ رہنا ہے۔ آزاد کینسر کا شکار ہوئے ڈان کی طرف سے کوئی میڈیکل سہولت نہ دی گئی کام پر آنے ہر مجبور کیا جاتا رہا اور پھر نوکری سے نکال دیا گیا۔ آزاد اس کے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے https://t.co/aWFRmKIZzz
— Salman Haider (@SalmanHydr) June 16, 2020
امتیاز کی بہن ناہید اسرار نے اس واقعے کی ٹوئٹر پر تصدیق کچھ یوں کی: 'ڈان کے اس برتاؤ سے وہ کافی دل برداشتہ ہوئے۔'
ڈان کے اس برتائو سے وہ کافی دلبرداشتہ رہے۔ آخری ایام میں بھی اپنے کام کے حوالے سے باتیں کرتے رہتے تھے
— deehanrarsi (@deehanrarsi) June 15, 2020
اسی طرح ملٹی میڈیا پروڈیوسر ایڈیٹر جمیل خان کا روڈ ایکسیڈنٹ میں ٹانگ ٹوٹنے کے کچھ عرصے بعد ان سے ٹرانسپورٹ کی سہولت واپس لے لی گئی، جس کے بعد وہ مجبوراً کچھ عرصہ پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرنے کے بعد دفتر چھوڑ کر چلے گئے۔ جمیل نے ٹوئٹر پر کچھ لکھا
میں نے مصدق کے انتقال کے بعد سے بہت مالی مشکلات کا وقت گزارا ہے.... https://t.co/l6k1p2NtUT
— Jamil Khan (@JamilKhan009) June 16, 2020
ایک سابق ملٹی میڈیا پروڈیوسر نے (نام ظاہر نہیں کیا جا رہا) بتایا کہ انہوں نے جب ڈان ڈاٹ کام کے تھرڈ پارٹی ہیومن ریسوس دفتر سے اپنی آنکھ کے آپریشن کے لیے 25 ہزار روپے قرضہ لیا تو ان سے قرضے پر تین ہزار روپے سود کی مد میں تنخواہ سے کاٹ لیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خیال رہے کہ ڈان ڈاٹ کام روزنامہ ڈان سے الگ آزادانہ حیثیت میں کام کرتا ہے۔ ڈان۔ کام میں سٹاف کے ساتھ ہونے والے مبینہ ناروا سلوک پر ڈیجیٹل جرنلسٹس نامی فیس بک گروپ پر خوب بحث ہو رہی ہے ۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جہانزیب حق کا موقف لینے کے لیے ان سے بذریعہ فون کال اور میسج رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
دوسری جانب پاکستان ہیرالڈ ورکرز یونین کے جنرل سکریٹری رشاد محمود نے بدھ کو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ یہ دفتری ماحول کافی سالوں سے یوں ہی چلا آ رہا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ اس معاملے کا اعلیٰ سطح پر نوٹس لیا جائے۔