ہم میں سے اکثر لوگ موبائل یا دیگر ڈیوائسز کی بیٹری خراب ہونے، ٹھیک طرح سے چارج نہ ہونے یا بہت دیر سے چارج ہونے کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی ایسی بیٹری ہو جو پلک جھپکتے میں چارج ہوجائے۔
خیر پلک جھپکتے میں تو ایسا ہونا فی الحال ممکن نہیں، لیکن ایک پاکستانی پی ایچ ڈی طالب علم نے ایک ایسی بیٹری ضرور بنا لی ہے جو دو منٹ میں 70 فیصد سے زائد تک چارج ہو سکتی ہے۔
یہ ہونہار طالب علم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے باغ سے تعلق رکھنے والے کامران امین ہیں، جو آج کل چینی دارالحکومت بیجنگ کی نیشنل سینٹر فار نینو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، چائینیز اکیڈمی آف سائنسز سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
کامران کا ریسرچ ورک بنیادی طور پر انرجی سٹوریج میٹریل اینڈ ڈیوائسز خصوصاً لیتھیئم آئن بیٹریز کے حوالے سے ہے، یعنیٰ وہ لیب میں ایسے نئے میٹریل بناتے ہیں، جن میں انرجی (توانائی) کو محفوظ کیا جاسکے اور جن کی توانائی محفوظ کرنے کی صلاحیت مارکیٹ میں پہلے سے موجود میٹریلز سے زیادہ ہو۔
انہوں نے لیب میں ایک ایسا میٹریل بنایا ہے جو توانائی کو محفوظ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے ایسا پراسس بھی ترتیب دیا ہے، جس کے تحت اصولوں کا خیال رکھتے ہوئے اگر بیٹری بنائی جائے تو اسے دو منٹ میں 70 فیصد سے زائد تک چارج کیا جاسکتا ہے۔
کامران کہتے ہیں کہاگر آپ اس بیٹری کو دو منٹ چارج کرلیں تو یہ 70 فیصد سے زائد تک چارج ہوجائے گی، اگرچہ وہ 100 فیصد تک نہیں پہنچ سکے لیکن اس کے نتائج کافی حوصلہ افزا ہیں۔ 'موبائل یا کسی بھی دوسری ڈیوائس میں لگی بیٹری کی صلاحیت وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے، کچھ بیٹریاں صرف 100 دفعہ چارج کرنے پر ہی بہتر نتائج دیتی ہیں اور پھر ان کی صلاحیت کم ہونے لگتی ہے، لیکن ہماری بنائی گئی اس بیٹری کو 24 گھنٹے میں اگر ایک دفعہ چارج کیا جائے تو یہ آٹھ سال تک اپنی پوری صلاحیت دیتی رہے گی۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مختصراً یہ کہ اگر آپ کے موبائل میں یہ بیٹری لگی ہوئی ہے تو آٹھ سال تک آپ کو بیٹری بدلنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
بیٹری کو مارکیٹ میں لانچ کرنے سے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا کہ ان کے اس پروجیکٹ کی فنڈنگ موبائل ساز کمپنی 'لینوو' نے کی اور اسے آگے کس طرح استعمال کرنا ہے، اس کا فیصلہ کمپنی کرے گی، تاہم ابھی لیب کی سطح پر کام ہو رہا ہے اور اسے مارکیٹ میں لانچ کرنے کے لیے پیٹنٹ کی ضرروت پڑتی ہے۔
اس پروجیکٹ کے حوالے سے کامران کا مقالہ رائل سوسائٹی آف کیمسٹری کے جرنل میں شائع ہوچکا ہے جبکہ وہ یونیورسٹی میں بھی دو مرتبہ آؤٹ سٹینڈنگ سٹوڈنٹ کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔
پاکستان میں اس طرح کے پروجیکٹس کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کامران نے بتایا: 'ابھی تک ہمارے ملک میں سیکنڈری انرجی سٹوریج ڈیوائسز، جن کو ری چارج ایبل بیٹریز بھی کہتے ہیں، کے حوالے سے نہ تو کوئی ریسرچ لیب ہے اور نہ ہی ہمارے پاس تربیت یافتہ افراد ہیں۔ اگر اس شعبے میں تربیت یافتہ کچھ پاکستانی ہیں بھی تو وہ بھی بیرون ملک ہی کام کر رہے ہیں۔'
انہوں نے مزید کہا کہ ابھی حکومت نے الیکٹرک وہیکلز کی پالیسی لانچ کرنی ہے، سولر پینلز کی ڈیمانڈ بڑھے گی، موبائل الیکڑونکس کا رجحان بہت بڑھتا جا رہا ہے، جس کے لیے بیٹریز کی ضرورت ہوگی، اگر یہ بیٹریز آپ بیرون ملک سے خریدیں گے تو اس پر بہت زیادہ خرچہ آئے گا، لہٰذا ضروری ہے کہ ملک میں نہ صرف ایسی لیبارٹریز قائم کی جائیں بلکہ تربیت یافتہ افراد بھی ہوں، جو ان بیٹریز پر کام کرسکیں۔