بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ان کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں پر عمل نہیں کیا اور دو سالوں میں سینکڑوں لاپتہ افراد میں سے 18 بازیاب ہوئے جبکہ باقی ابھی تک لاپتہ ہیں۔
سردار اختر مینگل نے بلوچستان کے بحران پر بامعنیٰ مذاکرات کے لیے ماحول کو سازگار بنانے کے غرض سے یہ چھ شرائط پیش کی تھیں۔
بلوچ عوام کے خلاف تمام خفیہ اور ظاہری آپریشن بند کیے جائیں۔ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کر کے قانون کی عدالت میں پیش کیا جائے۔ بلوچ سیاسی جماعتوں کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت کے بغیر اپنی سرگرمیاں بحال کرنے اور جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔ نواب اکبر بگٹی اور حبیب جالب سمیت تمام بلوچ لیڈروں اور کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنانے، انہیں قتل کرنے اور ان کی لاشیں مسخ کر کے پھیکنے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کہٹرے میں لایا جائے۔
اور اپنے علاقوں سے بےدخل کیے جانے والے ہزاروں بلوچوں کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ کہا جاتا ہے مینگل کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ آپ کے مطالبات پر عمل درآمد ہو گا تبھی وہ حکومتی اتحاد کا حصہ بنے تھے۔
مجید اصغر نے اپنی صحافتی زندگی کے 40 سال کوئٹہ میں گزارے۔ وہ روزنامہ جنگ کوئٹہ کے ایڈیٹر رہے اور اپنی کتاب ’مقدمہ بلوچستان‘ میں لکھتے ہیں کہ وفاق میں برسراقتدار ہر حکومت نے خواہ وہ جمہوری ہو یا آمرانہ، بلوچوں کو گلے لگانے کی بجائے طاقت سے دبانے کی کوشش کی۔
یہ سلسلہ نواب زادہ لیاقت علی خان کے دور سے ہی شروع ہو گیا تھا جب آزادی کے ایک سال بعد قلات پر چڑھائی کر کے خان آف قلات کے بھائی پرنس عبدالکریم اور بعد میں زہری قبائل کے نواب نوروز خان کے خلاف فوجی آپریشن کیا گیا۔ سب سے بڑے فوجی آپریشن ایوب اور بھٹو دور میں ہوئے۔ ان میں سے ایک منتخب جمہوری وزیر اعظم اور دوسرا آمر تھا۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ مقتدرہ کے بزج مہروں کے نزدیک بلوچستان کا مسئلہ صرف تین ’پاکستان دشمن‘ نوابوں سرداروں کا پیدا کردہ ہے۔ یہ تین عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری اور اکبر بگٹی تھے۔ مگر بزرج مہر بھول جاتے ہیں کہ اکبر بگٹی وہ تھا جس نے قائد اعظم کا کوئٹہ پہنچنے پر خود استقبال کیا، محدود ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالا، مرکزی وزیر کی حثییت سے پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا اور بلوچستان کے گورنر اور وزیراعلیٰ رہے۔
1957 میں وزیر اعظم ملک فیروز خان نون کے ساتھ وزیر مملکت برائے داخلہ کی حیثیت سے اومان سے تحصیل گودار کی تقریباً تین کروڑ روپے میں خریداری کا معاہدہ کر کے پاکستان کے رقبہ میں پانچ ہزار کلومیٹر کا اضافہ کرایا۔ وفاق پاکستان کی پرزور حمایت پر بلوچوں سے سٹیبلشمنٹ کا آدمی ہونے کے طعنے سنے مگر بلوچ عوام کے حق حکمرانی اور ساحل و وسائل پر اختیار کے مطالبے سے جو قرداد پاکستان اور قائد اعظم و خان آف قلات کے درمیان ہونے والے الحاق کے معاہدے کے عین مطابق تھا دستبردار نہ ہونے پر راندہ درگاہ ٹھہرے آخر کار کوہلو کے ایک دشوار گزار پہاڑ کی غار میں ہلاک کر دیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسرے دشمن اختر مینگل کے والد عطا اللہ مینگل نے 1956 میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے اور پھر 1972 میں بلوچستان کے منتخب وزیراعلیٰ کے طور پر پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا۔ ان کی فیصل آباد میں تقریر کے دوران یہ اعلان بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ بلوچستان سے ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کیا جائے۔
تیسرے بڑے مخالف کی وجہ شہرت بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے ایک فلسفی قبائلی سربراہ کی تھی۔ 1970 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا مگر تہتر کے آئین میں صوبوں کو مکمل خود مختاری نہ ملنے پر سیاست سے ہی کنارہ کش ہو گئے اور تادم مرگ کراچی میں رہائش پذیر رہے۔
اختر مینگل کے مطالبات ایسے ناجائز بھی نہیں۔ کئی بلوچ لاپتہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سارے بلوچ پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سارے بلوچ اپنی سرزمین پر حق حاکمیت اور اپنے وسائل پر مکمل اختیار چاہتے ہیں۔
یہ حق اور اختیار انہیں پاکستان کے اندر مل جائے وہ اس کے لیے تیار ہیں لیکن بدقسمتی سے ملک کی مقتدر قوتوں نے انہیں سینے سے لگانے کی بجائے ہمیشہ دیوار سے لگانے کی پالیسی اپنائی جبکہ انہیں اپنا بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے جائز مطالبات کو مانا جائے۔
ملک اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ کرونا کی وبا نے معیشت کو مفلوج کر دیا۔ ہمارا پڑوسی ملک جارحیت کے موڈ میں ہے۔ یہ وقت اتحاد و یگانگت دکھانے کا ہے لہٰذا مقتدرہ کو آگے بڑھ کر کھلے دل سے بلوچ رہنماؤں کو سینے سے لگانا ہوگا اور آبرومندانہ مذاکرات کر کے بلوچوں کی شکایات کا ازالہ کرنا ہوگا۔