عدالتی فیصلے سے عمران فاروق قتل کی تحقیقات مکمل ہوگئیں: برطانیہ

برطانیہ کے مطابق ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات تکمیل کو پہنچ گئیں ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید لندن پولیس اس میں مزید تحقیقات نہیں کرے گی۔

(اے ایف پی)

دس سال قبل لندن میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا مجرم قرار دیئے جانے پر اسلام آباد میں برطانیہ کے ہائی کمیشن کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ نتائج پاکستان اور برطانیہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ کوششوں سے حاصل ہوئے۔

’یہ سزا برطانیہ اور پاکستان کے مابین مشترکہ کارروائیوں کے بعد سنائی گئی ہے۔ لندن کی میٹرو پولیٹن پولیس کی جانب سے تحقیقات کے بعد جمع کیے جانے والے ثبوت پاکستانی استغاثہ کو فراہم کیے جو کہ مذکورہ کیس کی عدالتی کارروائی میں استعمال کیے گئے۔‘

بیان کے مطابق آج کی کارروائی کے بعد متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)  سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیت ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات تکمیل کو پہنچ گئیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید لندن پولیس اس میں مزید تحقیقات نہیں کرے گی۔

اسلام آباد میں ایک مقدمے کی کارروائی کے بعد پاکستانی شہریت کے حامل 35 سالہ محسن علی سید جس کی تاریخِ پیدائش 15  مئی، 1985 ہے ، کو ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل اور قتل کی سازش کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔

میٹرو پولیٹن پولیس کی جانب سے  ایک اور پاکستانی شہری، 40 سالہ محمد کاشف خان کامران، تاریخِ پیدائش 6 جولائی، 1979 کو شریکِ جرم کی حیثیت سے شناخت کیا گیا تھا۔ عدالت نے محمد کامران کو اس کی عدم موجودگی میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے جرم میں سزا سنائی ہے۔

1992 میں فوجی کارروائی کے آغاز پر حکومت کی جانب سے ڈاکٹر عمران فاروق کی گرفتاری پر انعام کا اشتہار (سوشل میڈیا)


ہائی کمیشن کا کہنا تھا کہ دونوں شریک مجرموں محسن علی سید اور محمد کامران کے خلاف تحقیقات کے دوران دونوں کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے ثابت ہوا۔ تحقیقاتی ٹیم کے اس شبہے کی بھی تصدیق ہوئی ہے کہ اس قتل کی وجوہات سیاسی نوعیت کی ہیں۔

پاکستان کے لیے برطانوی ہائی کمشنر ڈاکٹر کرسچیئن ٹرنر (سی ایم جی) نے کہا: ’آج کی فردِ جرم ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات اور انصاف کی فراہمی کے لیے برطانیہ اور پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کی جانے والی مشترکہ کوششوں کی علامت ہے۔‘

میٹرو پولیٹن پولیس نے تفتیش کیسے کی

۔ پاکستان نے فروری 2019 میں برطانیہ سے باہمی قانونی مدد کی درخواست (ایم ایل اے) کی۔ اس دوران باقاعدہ پاکستانی قوانین میں ایک عارضی ترمیم کی گئی جس کے تحت ایسے ممالک سے جہاں سزائے موت ممنوع ہے، ایم ایل اے کے ذریعے منتقل کیے جانے والے کیسز پر سزائے موت کا اطلاق نہیں ہوسکے گا۔ پاکستانی حکام کی جانب سے  مزید یقین دہانی کرائی گئی کہ مذکورہ کیس میں سزائے موت عائد نہیں ہوگی۔

۔ برطانوی حکام نے اگست 2019 میں ایم ایل اے قبول کرلی۔ برطانوی عہدیداران نے محسن علی سید اور محمد کامران کے خلاف استغاثے میں پاکستان حکام کی مدد کے لیے اپنی تحقیقات کے ذریعے حاصل کردہ شواہد فراہم کرنے شروع کر دیے۔

۔ پاکستانی قوانین میں عارضی ترمیم اور اس کے نتیجے میں پاکستانی  مقدمے کی سماعت میں برطانوی اداروں  کی جانب سے ثبوت کی فراہمی، برطانیہ اور پاکستان کے مابین قانونی تعاون کے سلسلے میں ایک اہم آغاز  تھا۔

۔ شمالی لندن کے علاقے ایجویئر میں پیش آنے والے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تفتیش لندن کی میٹرو پولیٹن  پولیس کے کاؤنٹر ٹیررزم کمانڈ کے سراغ رسانوں کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے ۔

۔ اس دوران اہلکاروں نے سی سی ٹی وی سے حاصل کردہ  ہزاروں گھنٹوں پر مشتمل وڈیو فوٹیج کا جائزہ لیا، چار ہزار سے زیادہ گواہوں کے ساتھ بات کی اور تحقیقات کے حصے کے طور پر 4500 سے زیادہ  ثبوت اور شہادتیں  جمع کیں۔

۔ ابتدائی طور پر سراغ رسانوں کے استعمال کے لیے حملہ آوروں کی شناخت میں معاون ثابت ہونے والے بہت کم شواہد میسر  تھے۔ اس واردات کو  دیکھ کر دونوں حملہ آوروں کی  شناخت سے متعلق معلومات فراہم کرنے والے گواہوں کی تعداد بہت قلیل تھی۔ لیکن گھر کے قریب یا اطراف میں کوئی کلوز سرکٹ کیمرہ موجود نہیں تھا جس میں ملزمان  کو دیکھا گیا ہو۔ حملہ آوروں کی شناخت کے لیے فورنسک ثبوت بھی  فوری طور پر میسر نہیں تھے۔

۔ بعد میں کی جانے والی تحقیقات کے ذریعے ایک اے ٹی ایم میں نصب کیمرے سے حاصل کردہ فوٹیج  نے حملہ آوروں کے سراغ میں مدد دی اور شمالی لندن کے ایک مقام پر پہنچ کر دونوں حملہ آوروں کا باہمی تعلق سامنے آیا۔ اس کے بعد سی سی ٹی وی کی مزید فوٹیج حاصل کر کے تحقیقات میں استعمال کی گئی۔

۔ سراغ رسانوں نے اس قتل کے کچھ دن بعد ہی دریافت کر لیا کہ محسن علی سید اور محمد کامران نے لندن سے کولمبو سری لنکا کی فلائٹ لی اور 19 ستمبر کو کراچی کا ہوائی سفر کیا۔

عدالت میں آج کیا ہوا

اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے تین ملزموں شمیم خالد، محسن علی اور معظم علی کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے فیصلہ سناتے ہوئے تینوں ملزمان کو متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر رہنما عمران فاروق کے اہل خانہ کو 10، 10 لاکھ روپے ادا کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔

فیصلے میں بانی متحدہ قومی موومنٹ الطاف حسین، افتخار حسین اور اشتہاری ملزمان محمد انور اور کاشف کامران کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے گئے۔

ملزم معظم علی، سید محسن علی اور خالد شمیم نے وڈیو لنک کے ذریعے اڈیالہ جیل سے مقدمے کا فیصلہ سنا۔ تینوں پر قتل، قتل کی سہولت کاری، سازش، اور معاونت کے الزامات تھے۔

ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر، 2010 کو برطانیہ میں قتل کیا گیا تھا۔ تاہم وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پانچ دسمبر، 2015 کو اس قتل کا مقدمہ پاکستان میں درج کیا۔

پاکستانی حکومت نے برطانیہ کو دوران ٹرائل یقین دہانی کروائی تھی کہ جرم ثابت ہونے پر ملزمان کو سزائے موت نہیں دی جائے گی۔

عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نےڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کا 39 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران فاروق کو قتل کرنے کا حکم بانی متحدہ نے دیا تھا جس کے لیے محسن علی اور کاشف خان کامران کو برطانیہ لے جا کر قتل کروانے کے لیے بھرپور مدد کی گئی۔

ملزم معظم علی کی بیوی سعدیہ معظم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'مجھے ایسے ہی فیصلے کی امید تھی، ایک ہی لاٹھی سے تینوں ملزمان کو ہانک دیا گیا۔ مجھے عدالت سے کبھی انصاف نہیں ملا۔

'ایک ایسے آدمی کے قتل میں تین خاندان برباد کردیے  گئے، جس کا قتل ہی اس ملک میں نہیں ہوا اور جس کے سر کی قیمت خود حکومت پاکستان نے لگائی تھی۔'

ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کب، کیا ہوا؟

16 ستمبر، 2010 کی رات ڈاکٹر عمران فاروق متحدہ قومی موومنٹ کے ایک ساتھی رہنما کی سالگرہ میں شرکت کرنے والے تھے۔ برطانیہ میں سکونت اختیار کرنے والے وہ پاکستان کے مشہور جلاوطن سیاستدانوں میں سے ایک تھے۔ کہتے ہیں کہ اپنی حفاظت کے بارے میں ہمیشہ محتاط رہتے تھے۔

تاہم اس شام وہ بنا کسی حفاظت کے لندن کے علاقے ایجوئر میں واقع ایک فارمیسی سے، جہاں وہ ملازمت کرتے تھے، اپنے گھر کی جانب چل پڑے۔ ان کی رہائش گرین کورٹ نامی اپارٹمنٹ بلاک میں 1940 میں بنی ہوئی پرانی عمارت میں تھی۔ وہ اپنی بیوی شمائلہ اور دو بیٹے عالی شان اور وجدان کے ساتھ رہتے تھے۔ ان بیٹوں کی عمریں اس وقت پانچ اور تین سال تھیں۔ 

شام 5:30 بجے کے قریب ڈاکٹر عمران فاروق اپنے اپارٹمنٹ کے داخلی راستے سے عمارت کے اندر داخل ہو رہے تھے تو ایک آدمی نے ان پر اچانک حملہ کر دیا۔ حملہ آور نے متعدد بار اینٹ ان کے سر پر ماری اور چھری سے کئی وار کیے۔ حملے کے بعد طبی عملے نے انہیں بچانے کی کافی کوششیں کیں لیکن وہ جائے وقوعہ پر ہی مردہ قرار دے دیئے گئے۔

ڈاکٹر عمران فاروق 1992 میں کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف سکیورٹی اداروں کی جانب سے ہونے والے 'آپریشن کلین اپ' کے دوران غائب ہوگئے تھے۔ سال 1999 میں وہ دوبارہ منظر عام پر آئے جب انہوں نے لندن میں سیاسی پناہ حاصل کی۔ اس کا اعلان انہوں نے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا۔

ڈاکٹر عمران فاروق کو یاد کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے ایک سابق رکن کا کہنا تھا کہ 'متحدہ قومی موومنٹ کے پاس صرف دو دماغ تھے۔ ایک عظیم طارق احمد جو ایم کیو ایم کے چیئرمین تھے اور دوسرے ڈاکٹر عمران فاروق تھے۔ وہ ایک خاموش طبعیت شخص تھے اور میڈیا کے سامنے آنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ایم کیو ایم کا ذیادہ تر لٹریچر ان کی ہی کا لکھا ہوا ہے۔ وہ کبھی بھی الطاف حسین کے لیے خطرہ نہیں تھے اور ان سے لائم لائٹ چھیننا نہیں چاہتے تھے۔'

ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے فوراً بعد ہی برطانیہ کی میٹروپولیٹن پولیس سکاٹ لینڈ یارڈ کے انسداد دہشت گردی کے یونٹ نے اس قتل کی تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔ اس وقت پولیس کو جائے وقوعہ سے پانچ انچ لمبا خنجر اور ایک اینٹ برآمد ہوئی تھی۔

سکاٹ لینڈ یارڈ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 'وہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے سلسلے میں دو ایشیائی افراد سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ متعدد گواہوں نے پہلے ہی پولیس سے رابطہ کیا ہے لیکن افسران کا خیال ہے کہ اور بھی لوگ ہیں جو واقعے کے بارے میں اہم معلومات رکھتے ہیں اس لیے وہ انہیں آگے آنے کی ہدایت  کرتے ہیں۔'

میرے شوہر کو سکیورٹی کے خدشات تھے، جس کا ذکر انہوں نے میٹرو پولیٹن پولیس سے بھی کیا تھا: اہلیہ

پولیس نے 2010 میں ایک نامعلوم ملزم کو گرفتار بھی کیا تھا لیکن اس کے بعد دو سال تک اس کیس میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی۔ البتہ اس قتل کی تحقیقات میں پہلی مرتبہ 6 دسمبر 2012 کو متحدہ قومی موومنٹ کے لندن سیکریٹریٹ اور بانی ایم کیو ایم کی رہائش گاہ پر چھاپے مارے جہاں سے پانچ لاکھ پاؤنڈز نقد برآمد ہوئے جو بعد میں منی لانڈرنگ کی مقدمے کی بنیاد بنی۔

24 جون، 2013 کو میٹرو پولیٹن پولیس نے ایک بڑی پیش رفت میں کینیڈا سے لندن پہنچنے والے ایک مشتبہ ملزم افتخار حسین کو ہیتھرو ایئرپورٹ سے گرفتار کیا۔ اس وقت پولیس کے مطابق یہ گرفتاری فرانزک ڈیٹا کی بنیاد پر کی گئی تھی جو کہ افتخار حسین کے ٹیلیفون ریکارڈ سے حاصل کیا گیا تھا۔ 

اس گرفتاری کے بعد 30 جون، 2013 کو اسکاٹ لینڈ یارڈ نے لندن میں الطاف حسین کے مکان کا کئی گھنٹے تک محاصرہ کیا اور تلاشی لی جس کے چند دن بعد ہی بانی ایم کیو ایم کے خلاف منی لانڈرنگ اور تشدد پر اکسانے کے جرم میں تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا۔ 14 ستمبر کو میٹرو پولیٹن پولیس کی انسداد دہشت گردی ٹیم نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل سے چند ماہ پہلے اپنا ایک 'آزاد سیاسی پروفائل' بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔

'ڈاکٹر عمران فارق ایم کیو ایم میں ایک الگ جماعت بنانے کی غلطی نہیں کرسکتے تھے۔' یہ کہنا تھا متحدہ قومی موومنٹ کے ایک اور رہنما کا جنہوں نے بھی نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ہمیں یہ بتایا کہ '2009 میں انہیں نظم و ضبط کی خلاف ورزیوں پر کنوینر کے عہدے سے معطل کر دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر عمران فاروق اپنے طالب علمی کے زمانے سے بانی ایم کیو ایم کے ساتھ تھے۔ وہ اپنے قتل سے صرف چند ماہ قبل ہی ایم کیو ایم سے الگ ہوئے تھے۔

’اس وقت ایم کیو ایم پاکستان میں کافی مضبوط جماعت تھی۔ وہ اس زمانے میں الگ جماعت بنانے کی غلطی نہیں کرسکتے تھے کیوں کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ایم کیو ایم کیا ہے، کیا کرسکتی ہے اور ان کی پوری فیملی یہاں تھی اس لیے وہ ہرگز یہ رسک نہیں لے سکتے تھے۔'

جون 2015 میں دو ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کو چمن سے گرفتار کیا گیا جبکہ معظم علی نامی ملزم کو کراچی میں نائن زیرو کے قریب ایک مکان سے گرفتار کیا گیا تھا۔

اس سے قبل برطانوی پولیس نے تحقیقات کے حوالے سے اپنی ویب سائٹ پر کچھ معلومات جاری کی تھی جس کے مطابق 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 میں برطانیہ پہنچے تھے جبکہ 29 سالہ محسن علی سید اس ہی سال فروری سے ستمبر تک برطانیہ میں مقیم تھے۔

تین مشتبہ افراد (سوشل میڈیا)


یہ دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے سٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔ ان تینوں ملزمان کو ایف آئی اے کی تحویل میں اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا جہاں ان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

یکم دسمبر، 2015 کو حکومت پاکستان نے عمران فاروق قتل کیس میں بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف ایف آئی اے کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر انعام غنی کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا۔ اس مقدمے میں ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور، افتخار حسین، معظم علی خان، خالد شمیم، کاشف خان اور سید محسن علی کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

آٹھ جنوری، 2016 کو اس مقدمے میں ملوث دو ملزمان محسن علی اور خالد شمیم نے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا جبکہ ملزم معظم علی نے جرم سے انکار کر دیا تھا۔ اگلے ہی دن اس کیس میں بڑی پیش رفت ہوئی جب گرفتار ملزمان نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں اہم انکشافات کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرعمران فاروق کو ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما محمد انور کی ہدایت پر قتل کیا جنہیں شک تھا کہ عمران فاروق ایک الگ سیاسی گروپ بنانا چاہتے تھے۔

ملزم کاشف خان نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ ملزم معظم علی کو فون کرکے کوڈ ورڈ میں قتل کی اطلاع دی تھی اور یہ کہا تھا کہ ’ماموں کی صبح ہوگئی‘جس کا مطلب تھا کہ عمران فاروق کا قتل کر دیا گیا ہے۔

29 اپریل، 2016 کو عمران فاروق قتل کیس کے اہم ملزم خالد شمیم کا ایک ویڈیو بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین عمران فاروق قتل کیس میں ملوث تھے۔ اس ویڈیو میں انہوں نے مصطفی کمال کا بھی نام لیا تھا جس کے باعث سیاسی حلقوں میں بےچینی پیدا ہوگئی تھی۔ اس کی وجہ گذشتہ ماہ ہی مصطفیٰ کمال کی جانب سے ایک نئی پاک سرزمین پارٹی کی بنیاد رکھنا تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2016 میں سکاٹ لینڈ یارڈ کی ایک ٹیم نے پاکستان آکر اس کیس میں گرفتار ملزمان کے بیانات لیے تھے۔ تاہم نومبر میں ایک اور بڑی پیش رفت یہ ہوئی تھی جب ملزم خالد شمیم نے اپنے اعترافی بیان میں یہ قبول کیا تھا کہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو سالگرہ کی مناسبت سے تحفہ دینے کے لیے 16 ستمبر کی تاریخ قتل کرنے کی لیے مقرر کی گئی تھی۔

اس کے بعد ایک لمبے عرصے تک یہ کیس التوا کا شکار رہا جس کی متعدد وجوہات بتائی جاتی رہی ہیں۔ ان میں استغاثہ کی جانب سے بار بار ڈیڈ لائن میں توسیع اور برطانوی حکومت کی جانب سے شواہد کی عدم فراہمی شامل ہے۔ البتہ 2019 میں برطانوی حکومت نے 23 برطانوی گواہان، تین تفتیش کار اور کچھ عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

ڈاکٹر عمران فاروق اپنی اہلیہ اور دو بیٹوں کے ساتھ (سوشل میڈیا)


رواں سال 4 فروری کو ڈاکٹر عمران فاورق کی بیوی نے پہلی مرتبہ باظابطہ طور پر اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں اپنا بیان دیتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے شوہر کو سکیورٹی کے خدشات تھے، جس کا ذکر انہوں نے میٹرو پولیٹن پولیس سے بھی کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملزمان محسن علی سید اور کاشف خان کامران کو ڈاکٹر عمران فاروق سے ملتے ہوئے دیکھا، دونوں نے اپنا تعارف ان کے پیروکار اور شائقین کے طور پر کروایا تھا۔

شمائلہ نے یہ بھی بتایا تھا کہ بانی ایم کیو ایم الطاف حسین سمیت پارٹی کے دیگر سینیئر رہنما بھی ڈاکٹر عمران فاروق سے خوش نہیں تھے۔

رواں سال 21 مئی کو انسداد دہشت گردی عدالت نے اس کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز احمد نے اس کیس میں اپنے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ قتل کی شام عینی شاہدین نے ملزمان کو عمران فاروق کے گھر کے پاس دیکھا تھا اور اسی شام ملزمان سی سی ٹی وی ویڈیو میں بھی عمران فاروق کا تعاقب کرتے ہوئے نظر آئے تھے جبکہ قتل کی شام یہی ملزمان برطانیہ سے سری لنکا روانہ ہوگئے تھے۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز احمد کے حتمی دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست