امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے ان پر 2020 کے انتخابات جتنے کے لیے چینی صدر شی جن پنگ سے مدد طلب کرنے کا الزام لگایا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بولٹن نے یہ دھماکہ خیز انکشاف اپنی نئی آنے والی کتاب میں کیا جس کے اقتباسات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کا محرک اصول صرف اور صرف دوسری صدارتی مدت میں کامیابی حاصل کرنے پر مرکوز ہے اور ان کے اعلیٰ مشیر جیوپولیٹیکل حقائق سے لاعلمی پر صدر ٹرمپ کو ناپسند کرتے ہیں۔
'واشنگٹن پوسٹ'، 'نیویارک ٹائمز' اور 'وال سٹریٹ جرنل' میں شائع ہونے والے اقتباسات میں بولٹن نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ صدر ٹرمپ نے بار بار چین کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں کو نظر انداز کیا اور سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ کہ انہوں نے چینی صدر کے اویغور مسلمانوں کے بڑے پیمانے پر قید کرنے کے اقدام کو جائز قرار دیا۔
بولٹن نے رئیل سٹیٹ ٹائیکون ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد ان کے مشیر کے طور پر اپنے تجربات کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا: 'بطور مشیر وائٹ ہاؤس میں خدمات انجام دینے کے دوران میں نے صدر ٹرمپ کا کوئی ایک بھی اہم فیصلہ ایسا نہیں دیکھا جس میں ان کی دوسری بار صدر منتخب ہونے کی خواہش پوشیدہ نہ ہو۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بولٹن نے دعویٰ کیا کہ 'گذشتہ سال جون میں صدر شی کے ساتھ ایک اہم ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے بات چیت کا رخ حیرت انگیز طور پر امریکی صدارتی انتخابات کی طرف موڑ دیا اور چین کی معاشی صلاحیت کو امریکی انتخابی مہمات پر اثر انداز ہونے کی نشاندہی کرتے ہوئے صدر شی سے التجا کی کہ وہ ان کی جیت کو یقینی بنائیں۔'
بولٹن لکھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے امریکی کسانوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کس طرح سویابین اور گندم کی چین کو فروخت میں اضافہ امریکی انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
شائع شدہ اقتباسات میں بولٹن نے کہا کہ ٹرمپ نے چین اور ترکی کی بڑی کمپنیوں کے مقدمات میں مداخلت کرکے آمریت کے لیے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔
بولٹن وائٹ ہاؤس میں انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے خدشات کے بارے میں اٹارنی جنرل ولیم بار کو آگاہ کیا تھا۔
بولٹن کا کہنا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے الفاظ ہوبہو شائع کرنا چاہتے ہیں لیکن کچھ قوانین اس میں رکاوٹ ہیں۔
ٹرمپ کے غم و غصے کے باعث محکمہ انصاف نے بدھ کو ایک ہنگامی حکم نامہ جاری کیا جس میں بولٹن کی اس کتاب کی اشاعت روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ چند روز کے دوران حکومت کی جانب سے اس کتاب کی اشاعت روکنے کی دوسری کوشش ہے۔
یہ استدلال پیش کرتے ہوئے کہ بولٹن خفیہ ایجنسیز کی جانب سے اپنے دعوؤں کی جانچ کرانے میں ناکام رہے ہیں، محکمہ انصاف نے عدالت سے استدعا کی کہ اگر اس کتاب کو دنیا کے لیے شائع کر دیا گیا تو اس سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچے گا جسے روکنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب صدر ٹرمپ نے 'فاکس نیوز' کو دیے گئے انٹرویو میں کہا: 'بولٹن نے انتہائی خفیہ معلومات افشا کر کے قانون توڑا ہے۔'
انہوں نے اپنے سابق مشیر کی 'ناکامی' پر بھی طنز کیا اور ماضی میں بولٹن کی عراق میں امریکی جنگ کے لیے حمایت پر ان کا مذاق اڑایا۔