کل شام کی چائے پر ہم موجودہ بجٹ کے حوالے سے سوچ رہے تھے کہ ایک شاعرانہ سا خیال آیا کہ سو سال پہلے انھی دنوں ہندوستان کے برطانوی حکمرانوں نے بھی مالی سال 1920-21 کا بجٹ پیش کیا ہو گا، اس کے اعداد وشمار کیا رہے ہوں گے۔ اس خیال کے آتے ہی ہم اپنی ڈیجیٹل لائبریری کا رخ کیا۔
اس لائبریری پر ہم اور ہمارے دو دوست، سعید رضا خان اور علی رضا گذشتہ آٹھ برسوں سے کام کر رہے ہیں۔ اس لائبریری سے معجزاتی طور پرایک ایسا مضمون ہمارے ہاتھ لگ گیا، جسے اس کالم کی شان نزول قرار دیا جا سکتا ہے۔
آج سے ٹھیک ایک سو سال پہلے وزیر مالیات ہند نے یکم مارچ 1920 کو مشترکہ ہندوستان کا مالی سال 1920-21 کا بجٹ پیش کیا۔ جس کے اعداد و شمارپر جے آر رائے نامی ایک صاحب نے ’تبادلہ سے ہمیں کیا نفع ہے‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ ان کا یہ مضمون اس دور کے ایک ممتاز اردو رسالے ’زمانہ‘ کے اپریل مئی 1920 کے شمارے میں شائع ہوا، جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہے۔ آئیے اس کےبعض مندرجات کا موجودہ بجٹ 2020-21 سے موازنہ کرتے ہیں۔
2020-21 کا بجٹ 12 جون 2020 کو وفاقی وزیر مالیات جناب حماد اظہر نے پیش کیا اور یہ کل 34 کھرب 37 ارب روپے کے خسارے کا بجٹ ہے۔
1920-21 کے بجٹ کے بارے میں صاحب مضمون لکھتے ہیں:
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یکم مارچ کو وزیر مالیات نے آمد و خرچ کا سالانہ حساب پیش کیا۔ جس سے ظاہر ہوا کہ خزانہ میں پچھلے سال کے تخمینہ کی نسبت چھ کروڑ روپے زائد آئے۔ اندازہ ایک ارب ساڑھے 29 کروڑ روپے کا تھا مگر وصول ایک ارب ساڑھے 35 کروڑ روپے ہوئے۔‘
یعنی اس وقت کی حکومت کی توقع سے کہیں زیادہ رقم محصولات کی مد میں موصول ہوئی۔ واضح رہے کہ یہ چھ کروڑ آج کے چھ کھرب روپے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
2020-21 کے بجٹ کے حوالے سے اقتصادی سروے میں جناب مشیر خزانہ نے اعتراف کیا ہے کہ ’کرونا کی وبا سے قبل معاشی ترقی کی شرح تین فیصد سے بڑھنے کی امید تھی تاہم مالی سال 20-2019 میں جی ڈی پی کی شرح نمو منفی 0.4 فیصد رہی ہے۔‘
1920 کا اقتصادی سروے بھی ذرا ملاحظہ ہو۔ جونیئر تجزیہ نگار جے آر رائے لکھتے ہیں:
’1917 میں شرحِ تبادلہ میں بیشی ہوئی تھی اور اسی سال خزانۂ ہند کو ساڑھے 13 کروڑ روپیہ آمدنی ہوئی تھی۔ 1919-20 کے دوران میں ساڑھے 22 کروڑ روپے اس مد سے وصول ہوئے یا بچت ہوئی اور 1920-21 میں پونے 31 کروڑ روپیہ بچت ہو گی۔
2020-21 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے دفاعی بجٹ میں تقریباً 12 فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔
1920-21کے بجٹ میں دفاع کے حوالےسے گذشتہ برس کے اعداد شمار دیتے ہوئےمضمون نگار لکھتے ہیں:
’جنگی اخراجات میں ہولناک بیشی ہوئی جس کا بڑا سبب جنگ سرحد ہے جس پر ایک کروڑ ساڑھے 47 لاکھ پونڈ یعنی 22 کروڑ روپے کے قریب خرچ ہو گیا۔ کل مصارف اس ذیل میں 96 کروڑ روپے تک پہنچتے ہیں جو کہ ایک نہایت بڑی رقم ہے۔‘
یہاں یہ یاددہانی ضروی ہے کہ یہ 96 کروڑ روپیہ جس جنگ پر خرچ ہوا اس کا ہندوستان سے کچھ لینا دینا نہیں تھا، وہ برطانیہ کی جنگ تھی، جس کا تاوان اس نے ہندوستان سے وصول کیا جو اس وقت دنیا کے غریب ترین ملکوں میں سے ایک تھا۔
2020-21 کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ47 برسوں میں پہلی مرتبہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا جب کہ نیب کے ملازمین جو اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی لیڈروں کی پکڑ دھکڑ میں مصروف ہیں، اس سے مستثنیٰ ہیں۔
1920-21 کے بجٹ کے بارے میں صاحب مضمون لکھتے ہیں:
’فوجی اخراجات سے قطع نظر اور مصارف سوا 64 کروڑ ہونے کی امید تھی مگر اس کے بجائے 69 کروڑ روپے خرچ ہوگئے۔ جس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ سرکاری ملازموں کے مشاہرہ میں اضافہ کیا گیا۔ قلیل تنخواہ والے بہت پریشان تھے۔ بہت اچھا ہوا۔‘
آخری جملہ قابل توجہ ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو قلیل تنخواہ والوں کی پریشانی سے کیا مطلب؟
2020-21 کے بجٹ میں آٓمدن کا مجموعی تخمینہ 63 کھرب 14 ارب روپے رکھا گیا ہے، محاصل سے آمدن کا تخمینہ 36 کھرب 99 ارب 50 کروڑ روپے ہے، بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 70 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
1920-21 کے بجٹ میں آئندہ برس کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے اس وقت کے ’جونئیر تجزیہ کار‘ بتاتے ہیں:
’محصولات کا صیغہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ اگلے سال اس سے ساڑھے 25 کروڑ روپے آمدنی ہونے کی توقع ہے۔ چمڑے پرجو محصول برآمد پچھلے ستمبرمیں لگایا گیا تھا اس سے ایک کروڑ روپیہ کے قریب آمدنی ہوئی، آئندہ اور زیادہ ہونے کی توقع ہے۔‘
2020-21 کے بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ہائر ايجوکيشن کميشن کو پانچ ارب روپے اضافی دینے کی سفارش کی گئی ہے جب کہ تعليم کے شعبے ميں اصلاحات کے لیے مزيد پانچ ارب روپے اور جدت کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا اور دیگر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے خصوصی ترقیاتی پروگرام کے تحت سات ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ انگریز حکومت تعلیم اور صحت کی اس حوالے سےکیا ترجیحات تھیں۔ مضمون نگار انگریز حکومت کی تعلیم اورصحت کے حوالے سے ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’تعلیم پر دو کروڑ 14 لاکھ روپیہ خرچ کیا جائے گا اور اس میں سے 27 لاکھ روپے صنعتی اور زراعتی تعلیم کے لیے وقف ہے۔ حفظان صحت پر بھی ایک رقم خاص خرچ ہو گی۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کو سالانہ ایک لاکھ روپیہ اور ملے گا۔‘
اب آپ پوچھیں گے کہ اس وقت کے روپے اور آج کے روپے کا کیا موازنہ؟ تو اس سوال کا جواب بھی حاضر ہے۔ اس وقت ایک برطانوی پاؤنڈ تقریباً ساڑھے چھ ہندوستانی روپے کے برابر تھا، جب کہ 1920 کا برطانوی پاؤنڈ اس وقت کے 45 پاؤنڈ کے مساوی ہے۔ اسی فارمولے کو آگے بڑھائیں اور آج کے پاکستانی روپے پر لاگو کریں تو اس وقت کا روپیہ موجودہ 1440 روپے کے برابر ہے۔ باقی ضرب تقسیم آپ خود کر لیں۔
میڈیا کے مطابق 70 سال میں یہ پہلا موقع ہے جب ملک کی مجموعی قومی پیداوار منفی رہے گی۔ آخری بار قیامِ پاکستان کے چند سالوں بعد مالی سال 1951-52 میں ملک کی مجموعی قومی پیداوار کی شرح منفی ایک فیصد رہی تھی۔
اب ذرا 1920-21 کی آئندہ کی شرح نمو بھی ملاحظہ فرمائیں۔
’اگلے سال کے تخمینہ آمد و خرچ کی رو سے یہ قرار دیا گیا ہے کہ کل آمدنی مختلف مدوں سے ایک ارب اور پونے 39 کروڑ روپیہ خرچ ہو گی اور کل خرچ ایک ارب اور پونے 36 کروڑ روپیہ ہو گا۔ دو کروڑ توفیر کا اندازہ ہے۔‘
توفیر فارسی کا لفظ ہے جو ہمارے ہاں آج کل مروج نہیں اس کے معنی اضافہ یا فراوانی کے ہیں۔ یہاں یا تو کتابت کی غلطی ہے یا صاحب مضمون نے غلطی سے دو کروڑ لکھ دیا۔ ان کے اعداد و شمار کے مطابق یہ رقم تین کروڑ ہونی چاہیے۔
اس مضمون میں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن یہ مختصر کالم اتنی طوالت کا متحمل نہیں ہو سکتا البتہ ایک ایسے وقت میں جب ریلوے، پی آئی اے، واپڈا اور سٹیل مل جیسے بڑے ادارے جنہیں ملکی معیشت کا بوجھ اٹھانا چاہیے، مسلسل خسارے میں جا رہے ہیں اور ملکی معیشت پر مزید بوجھ ڈال رہے ہیں۔ آنجہانی رائے صاحب کا یہ اقتباس دینا بہت ضروری ہے:
’ریلوں سے 1919-20 میں 80 کروڑروپیہ آمدنی ہوئی اور اگلے سال 84 کروڑ روپے کا اندازہ ہے۔ پانچ چھ سال میں یہ ایک ارب سے بھی متجاوز ہو جائے گی۔ ریلوں پر 30 کروڑ روپیہ خرچ کیا جائے گا۔ ساڑھے چار کروڑ روپیہ ہندوستان میں بیشتر ریلوں کی تکمیل اور تعمیر کے لیے اور باقی سارا برطانیہ میں خرچ ہو گا۔‘
یہ سوال ریاضی سے نہیں بلکہ فلسفے سے تعلق رکھتا ہے کہ اگر آمدن ہندوستان میں 80 کروڑ کی ہوئی تو اس میں سے ساڑھے 75 کروڑ برطانیہ میں کیوں خرچ ہو گا، ہندوستان جیسے غریب ملک میں کیوں نہیں؟
خیر، نوآبادیاتی لوٹ کھسوٹ سے قطع نظر اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس وقت حکومت کو سب سے زیادہ آمدنی ریلوے سے ہوتی تھی۔ اس کی واحد وجہ ایک ہی ہو سکتی ہے کہ اس وقت ریلوے کے وزیر بشیر احمد بلور، سعد رفیق یا شیخ رشید ٹائپ نہیں ہوتے ہوں گے۔
اس موازنے کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ سو سال پہلے 1920-21 کا بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش کیا گیا تھا۔ جب پوری دنیا پہلی عالمی جنگ کی بھٹی سے ابھی ابھی نکلی تھی جو بہر حال موجودہ وبائی صورت حال سے بڑا سانحہ تھا لیکن اس وقت کی حکومت ہند نے اسے جواز نہیں بنایا۔
سو سال بعد 2020-21 کا بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش کیا گیا جب پوری دنیا کو کرونا جیسی وبا کا سامنا ہےاور حکومت اس خراب بجٹ کی ساری ذمہ داری اسی وبا کے سر ڈال رہی ہے۔