پشاور تہکال پولیس سٹیشن میں راضی اللہ عرف عامر تہکالے نامی شہری کو برہنہ کرکے ان پر تشدد کے واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کو معطل کرنے کے بعد ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ایس ایس پی آپریشنز ظہور بابر آفریدی کا کہنا ہے کہ ملوث پولیس اہلکاروں کو نوکری سے برخاست کر کے انہیں دوبارہ بحال نہیں کیا جائے گا۔
ظہور بابر آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بدھ کی صبح جیسے ہی انہیں ویڈیو کی اطلاع ملی انہوں نے اس کے خلاف تحقیقات کرتے ہوئے تہکال تھانہ کے اہلکاروں کو فوری طور پر معطل کر دیا۔
انہوں نے عوام کے نام پیغام میں کہا کہ پولیس نہ صرف شہریوں کے جان ومال کی حفاظت کرتی ہے بلکہ ان کے عزت کی بھی حفاظت کرتی ہے۔
’ہم اپنے محکمے میں ایسے غیرقانونی کاموں کی ہرگز کسی بھی پولیس اہلکار یا افسر کو اجازت نہیں دیتے۔ اس سے پہلے بھی اگر پولیس کی جانب سے کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو اس کا ہم نے نوٹس لے کر ایسے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی ہے۔‘
گذشتہ دنوں پشاور کے علاقے تہکال کے رہائشی راضی اللہ عرف عامر تہکالے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی جس میں وہ پولیس کے بارے میں برے الفاظ استعمال کر رہے تھے جس کے بعد ایک اور ویڈیو سامنے آئی جس میں پولیس اہلکار انہیں برینہ کر کے ان پر تشدد کر رہے تھے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں واضح طور پر چار پولیس اہلکاروں کو شہری پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جب کہ پانچواں شخص ویڈیو بناتے ہوئے راضی اللہ کو گالیاں دے رہا ہوتا ہے۔
پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ایک افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایس ایچ او اس تمام معاملے سے لاعلم رہے ہیں اور یہ تمام کیا دھرا ان کے محافظین اور دیگر اہلکاروں کا ہے۔
ابھی تک صرف چار پولیس والوں کو جن میں ایس ایچ او بھی شامل ہیں گرفتار کیا جاچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ویڈیو میں اگر ایس ایچ او نہیں ہیں تو موجود پانچ لوگوں میں سے صرف تین لوگوں کو کیوں معطل کیا گیا۔
اس حوالے سے ایس ایس پی آپریشنز نے بتایا کہ ڈیپارٹمنٹل کاروائی ابھی جاری ہے۔معطل شدہ اہلکاروں کو چارج شیٹ کر لیا گیا گیا ہے۔
صورتحال بعد میں مزید واضح ہو جائے گی۔ جس کے بعد ملوث تمام افراد کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔
قانونی کارروائی کیا ہوگی؟
اس حوالےسے پشاور ہائی کورٹ کے وکیل علی عظیم کہتے ہیں کہ سب سے پہلے تو اس شخص کی گرفتاری ہی قانونی خلاف ورزی میں شمار ہوتی ہے، کیونکہ نہ تو اس کے خلاف کسی نے ایف آئی آر کاٹی تھی اور نہ ہی کوئی روزنامچہ درج ہوا تھا۔
’اگر ایک شخص گالیاں بھی دے تب بھی اس کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ ایک عام شہری کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس کا ذہنی توازن بگڑا ہوا ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو۔ اگر پولیس اس کو گرفتار کرنا چاہتی بھی ہے تو اس کے لیے اس کے پاس گرفتاری کا وارنٹ ہونا چاہیے۔‘
ہائی کورٹ پشاور کے وکیل مزید کہتے ہیں کہ اگر کسی شہری کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کیا جائے تو صرف اس غیر قانونی اقدام کی سزا پولیس ایکٹ 2017 کے پی کے سیکشن 119 کے مطابق پانچ سال قید بمع جرمانہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوران حراست پولیس کی جانب سے ملزم پر تشدد کے حوالے سے انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر دوران گرفتاری کسی شہری پر تشدد ہو تو اس کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ شخص پولیس کے خلاف ایف آئی آر درج کرے گا۔ اس کا میڈیکل ہوگا۔ ڈاکٹر معائنہ کرکے اپنی رپورٹ میں لکھے گا کہ اس کو کیا جسمانی اور ذہنی نقصان پہنچا ہے۔
’لیکن اس حوالے سے قانون کہتا ہے کہ ریاست خود بڑھ کر اس میں ذمہ داری کا ثبوت دے کر ایسے شخص کی مدد کرے۔ لہذا دوران حراست تشدد کی سزا ٹارچر کی شدت کے مطابق کی جاتی ہے۔ جس میں ایک سال یا کئی سال کی سزا اور جرمانہ شامل ہے۔‘
علی عظیم نے موجودہ واقعے کے حوالے سے بتایا کہ ایسے اہلکاروں کو دوبارہ بحال کرنا یا نہ کرنا پولیس ادارے کے سربراہان کے صوابدید پر ہوتا ہے وہ چاہیں تو سزا دے کر رینک کم کر دیں، مراعات واپس لے لیں یا دوبارہ بحال کر دیں۔
ہائی کورٹ وکیل علی عظیم کا کہنا ہے کہ راضی اللہ کے معاملے میں ریاست کو ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیے کیونکہ اگر ایک عام شخص کوئی جرم کرکے جیل جاتا ہے تو جو قانون کے رکھوالے ہیں اگر وہ کچھ غلط کرتے ہیں تو انہیں بھی قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔