علامہ طالب جوہری اور طارق عزیز کی صورت میں جس طرح باقی دنیا کے لیے یادوں کے کچھ حوالے مر گئے، میرے لیے بھی مر گئے۔ مگر ان حوالوں میں ایک حوالہ میرے لیے مفتی نعیم بھی ہیں۔
استاد تو وہ سبھی کے تھے، میرے لیے بچپن اور لڑکپن کا ایک نشان ہیں جو زندگی کے مختلف ابواب میں ہر دوسرے یا تیسرے صفحے پر درج ہے۔
کم لوگ ہی یہ بات جانتے ہیں کہ مفتی نعیم کا تعلق گجرات کے ایک پارسی خاندان سے تھا۔ ان کے والد اسلام قبول کرنے والے خاندان کے پہلے آدمی تھے۔ مفتی نعیم دینی مدرسے جانے والے گھر کے واحد آدمی تھے۔ اس خوش حال گھرانے کے باقی افراد اپنے پرکشش کار روزگار سے جانے جاتے ہیں۔ کراچی کے پوش علاقوں اور بیرون ممالک میں رہنے والے ان نفیس طبع لوگوں کی بود وباش اور طرزِ زندگی دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ مانے جانے مفتی صاحب کا تعلق اس گھرانے سے ہو گا۔
دیوبند مسلک کی ایک مقتدر جامعہ، بنوری ٹاؤن سے انہوں نے تعلیم حاصل کی اور وہیں انہوں نے تدریس بھی کی۔ یہ ان کا اعزاز جانا جاتا ہے کہ جامعہ میں وہ بیک وقت طالب علم بھی تھے اور استاد بھی تھے۔ سندِ فراغت حاصل کرنے سے دو سال پہلے ہی بطور استاد ان کا تقرر ہو گیا تھا۔ یعنی آدھے سے زیادہ جامعہ انہیں نعیم بھائی اور آدھے سے کم جامعہ انہیں استاد جی کہتا تھا۔
کچھ عرصے کی دوڑ دھوپ کے بعد انہوں نے جنوبی علاقے کی خاردار جھاڑیوں کے بیچ بنوریہ کے نام سے اپنا جامعہ اگا لیا تھا۔ کم وقت میں اس کا ڈنکا اِس زور سے بجا کہ بنوری ٹاؤن کو بھی لوگ بنوریہ ٹاؤن کہنے لگے۔ اس مدرسے میں مجھے باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب افغانستان کو تار تار کرنے والے جہادی علمائے کرام کی فور بائی فور مسلح گاڑیاں شہر سے گزرتیں تو لوگ عش عش کر اٹھتے تھے یا پھر سہم کے دیوار سے لگ جاتے تھے۔ میرے اس دور کی یہ کہانی دراصل ترک اور اختیار، دریافت اور فرار کی ایک ہوشربا سی داستان ہے۔ بشرطِ زندگی یہ داستان کبھی سنائیں گے، ابھی تو بات مفتی صاحب کی چل رہی ہے۔
مفتی صاحب پان کھاتے تھے، مگر پچکاری مارتے ہوئے کبھی کسی نے نہیں دیکھا۔ اسی طرح، وہ بات تو کرتے تھے مگر انہیں ’نہ‘ کہتے ہوئے کبھی کسی نے نہیں سنا۔ ایک فقرہ ’ہو جائے گا‘ تو سمجھو ان کی زبان کی نوک پر رکھا ہوا تھا۔ بنارس کی کچی بستی میں بلدیہ والوں سے اپنی ریڑھی چھڑانی ہو یا پھر چاند پر کسی نے کمند ڈالنی ہو، مفتی صاحب کی طرف سے جواب ایک ہی آئے گا ’ہو جائے گا۔‘
بنیادی طور پر ایک مست ملنگ اور بے نیاز آدمی تھے۔ کبھی محلے کے خوش دل بابے دیکھے ہیں جو بچوں کے ساتھ کہیں بھی کسی بھی طرح بیٹھ جاتے ہیں؟ بچے ان کو ایک کھسکا ہوا بزرگ سمجھ کے اٹھکیلیاں کرتے ہیں اور بابا بچہ بن کے ہی ہنس مکھ رد عمل دیتے ہیں؟ مفتی نعیم ایسے ہی تھے۔ وہ دفتر سے نکلتے تو کسی بھی موٹر سائیکل والے کو ہاتھ دیتے تھے اور بن پوچھے بیٹھ جاتے تھے۔ بیٹھنے کے بعد کہتے، ’آگے مسجد کے پاس اتار دو۔‘
کسی زمانے میں وہ گلی میں بند گٹر کے مسئلے کے لیے وزیر اعلیٰ ہاؤس اور میٹرک کے طالب علم کے کسی امتحانی مسئلے کے لیے بے دھڑک وزیر اعظم ہاوس کا فون لگا لیتے تھے۔ بعد میں احساس ہوا کہ ایسے نہیں ہوتا۔
آخری وقتوں کا مجھے نہیں پتہ، ہمارے وقتوں میں مفتی صاحب کو موبائل فون پر دو ہی کام آتے تھے۔ فون ڈائل کرنا اور کال ریسیو کرنا۔ نمبر محفوظ کرنا اور میسج کرنا ان کے بس کا روگ نہیں تھا۔ میں نے اور مفتی صاحب کے منجلے بیٹے فرحان نے چپ چھپا کے ایک مشترکہ فون خرید لیا تھا۔ تب موبائل فون خریدنے کے لیے بر سر روزگار لوگوں کو بھی پیٹ کاٹنا پڑتا تھا۔ پوری کہانی تو بہت لمبی ہے، مختصر یہ کہ فرحان گھر پہ بتاتا کہ فرنود کا ہے، میں اپنے والوں سے کہتا کہ فرحان کا ہے۔ اس زمانے میں ایک نمبر سے دوسرے نمبر پر بیلنس بھیجنے کا آپشن متعارف ہو گیا۔ سمجھو کہ ہم غریبوں کے وارے نیارے ہو گئے۔
میں دفتر جا کر مفتی صاحب سے علیک سلیک کرتا، ایک دو چہلیں کرنے کے بعد کہتا، اچھا فون دیجیے نا ذرا ایک نمبر سیو کرنا ہے۔ کس کا نمبر کون سا نمبر جیسے سوال کیے بغیر فون پکڑا دیتے تھے۔ ان کے ناک کے نیچے بیٹھ کر میں اُن کے نمبر سے اپنے نمبر پر بیلنس منتقل کر کے اچھے بچوں کی طرح فون واپس کر دیتا۔
فون واپس لینے کے بعد بھی نہیں پوچھتے تھے کہ کس کا نمبر محفوظ کیا ہے کس نام سے کیا ہے۔ محتسبوں نے کبھی ہمارا احتساب کیا تو اور تو کچھ نہیں نکلے گا، اصلی نسلی البخور کی ڈھلیاں بہت نکلیں گی جو بچپن میں ہم نے مفتی صاحب کے دفتر سے چرائی تھیں۔ دو گھنٹے بعد انہیں ویسے بھی یاد نہیں ہوتا تھا کہ عربستان کے سفارت خانوں سے کسی نے انہیں عود اور عنبر کے بیش قیمت تحفے بھیجے ہوئے ہیں۔ ہماری جیب میں پیسہ پیٹ میں نوالہ نہیں ہوتا تھا مگر کمرے سے مہک سلطنت عثمانیہ کے درباروں والی آتی تھی۔
وقت آیا کہ آخرت کی فکر سے ہم نے نجات پالی اور اپنی چھوٹی سی دنیا کو بہشت کرنے نکل گئے۔ رفتہ رفتہ دل کے کعبے میں کھڑے سارے بت گر گئے اور فکر کی دنیا میں نئے ستون کھڑے ہو گئے۔ جن کے کہے کو ہم حدیثِ دلبری مانتے تھے انہی سے ہم کچھ سوال کرنے لگے۔ کل تک حرم کے پاسبانوں میں شمار رکھتے تھے آج مردودِ حرم ہو گئے۔
مفتی صاحب نے کچھ سال پہلے شرمین عبید چنائے کے لیے لفظ ’فاحشہ‘ استعمال کیا۔ یہ لفظ ہمارے سینوں میں کسی زہریلے نشتر کی طرح کھب کے رہ گیا۔ ہم نے بات کہی مگر مشیروں نے کہا، اس میں غلط کیا ہے؟ ہم نے غم اور غصے سے بھرا ایک کالم مفتی صاحب پر باندھ دیا۔ ان کے چاہنے والوں کی دنیا ہماری جان کو آ گئی۔ کچھ نے ایسی دراز دستیاں کیں کہ گریبان رہا نہ دامن بچا۔
ایک بات پر مجھے اطمینان ہے کہ جس سے ہم اختلاف کریں اس کا سامنا سہولت سے کر لیتے ہیں۔ کچھ ہی دن بعد ملاقات ہوئی تو مفتی صاحب پہلے سے زیادہ تپاک کے ساتھ ملے۔ ساتھ بیٹھے ایک ناہنجار مولوی نے میرے مضمون کا حوالہ دے کر آگ بھڑکانے کی پوری کوشش کی، مگر مفتی صاحب نے منہ کے آگے ہاتھ رکھ کے پیک دان میں پان تھوکا اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولے، گھڑی تو بہت اچھی لگ رہی ہے تیری۔ پیسے ویسے بہت آ گئے ہیں کیا؟
ہمارے عہد کے پیامبر عبدالستار ایدھی دنیا سے جاتے جاتے آنکھیں دان کر گئے۔ انسان کی حرمت پر عقیدوں کو فضیلت دینے والوں نے پیوندکاری پر حلال حرام کی بحث چھیڑ دی۔ کیمروں کا رخ مفتی صاحب کی طرف ہوا تو انہوں نے بھی کہا، جسم کا ہر عضو اللہ کی امانت ہے یہ کسی کو عطیہ نہیں ہو سکتا۔
دوستوں کو شاید یاد ہو کہ اس موقع پر بھی مفتی صاحب سے ہم نے اونچی آواز میں بات کر دی۔ لفظوں کی یہ تلخی کچھ دن کو محیط رہی۔ انہی دنوں میں ایک بندہ خدا اپنی اپنی کوئی مشکل لے کر میرے پاس آ گیا۔ اس مشکل کا حل اِس دھرتی پر سوائے مفتی صاحب کے کسی کے پاس نہیں تھا۔ میری ہمت نہیں بندھ رہی تھی، مگر حوصلہ جٹا عرضی گزار دی۔ مفتی صاحب نے کہا، ’ہو جائے گا‘ اور تاریخ بدلنے سے پہلے وہ کام ہو گیا۔
2018 کے انتخابات آئے تو ہر حلقے میں صف بندیاں ہونے لگیں۔ مذہبی حلقوں میں صفیں درست ہوئیں تو مفتی صاحب نے عوام کا ساتھ دینے کی بجائے طاقت کا ساتھ دیا۔ ہم جیسے سیاست کے طالب علم اس بات پر خفا تھے مگر چلو، پسند اپنی اپنی نصیب اپنا اپنا۔ مگر تب کہانی الجھ گئی جب انہوں نے سیاسی رہنما محمود خان اچکزئی کو اسلام کے دائرے سے بارہ پتھر باہر کر دیا۔
قصہ یہ ہے کہ ایک سیاسی مجلس میں مشر محمود خان اچکزئی نے ایک مذہبی حوالہ دیا تو کچھ اخبار نویسوں نے اس میں توہین کے پہلو نکال لیے۔ بھاگے بھاگے مفتی صاحب کے پاس گئے، بات رکھی تو مفتی صاحب بھی گرمی کھا گئے۔ کیمرے آن ہوئے اور مفتی صاحب نے محمود خان اچکزئی کو نشانے پہ رکھ لیا۔ ہمارے سینوں پر تو جیسے سانپ لوٹ گئے صاحب۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک بلاگ کی صورت میں اس بات پر ہم نے رد عمل دیا تو ان کے مصاحب پھر ہتھے سے اکھڑ گئے۔ کچھ ہی دن بعد مفتی صاحب سے ایک شادی میں سامنا ہوا تو ہمیشہ کی طرح وہ تو خاموش رہے، ہم نے ہی شکوہ کر دیا۔ اول تو بولے، چھوڑو یار غدار آدمی کی کیا بات کرتے ہو۔ ہم نے بصد احترام سیاست کی تاریخ میں غداری کے مفہوم، محمود خان اچکزئی اور خانِ شہید کے کردار پر بات شروع کی تو پھر پان چباتے رہے اور تحمل سے بات سنتے رہے۔ بات ختم ہوئی تو بولے، ’تو بھی اچھا خاصا غدار ہو گیا ہے۔‘
مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں کچھ لڑکوں نے مشال خان کو گھیر کر قتل کیا تو مذہبی حلقوں نے کہا، پہلے تحقیقات تو ہولینے دو پھر فیصلہ کرنا کہ مشال ٹھیک تھا کہ غلط۔ یعنی تحقیقات میں اگر مشال کا قصور ثابت ہو جائے تو پھر ہجوم کا اشتعال اور قتل بالکل جائز ہو گا۔ کیا کہنے صاحب کیا کہنے! ایسے میں کسی ٹی وی پر مفتی صاحب خاصے طیش میں یہ کہتے سنائی دیے کہ مشال خان غلطی پر ہو یا نہ ہو ہر صورت میں یہ سفاکیت تھی اور قاتلوں کو سزا ملنی چاہیے۔
ایک دن فرحان سے ملنے گیا تو مفتی صاحب باہر چوکیدار کی کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ میں نے ہاتھ ملایا اور کہا، ’ویسے مشال والے معاملے پر جو موقف آپ نے اختیار کیا بہت ہی سبحان اللہ تھا۔‘
دھیمے سے مسکرا کے بولے، ’استغفر اللہ قسم کی باتیں تو تجھے سبحان اللہ ہی لگتی ہیں۔‘
کراچی کے ایک بے مہار مولوی صاحب نے مفتی صاحب کے لیے گالم گفتار کو اپنے شب وروز کا وطیرہ بنا رکھا تھا۔ عربی فارسی، پشتو اور اردو سے آراستہ پیراستہ نت نئی گالیاں انہوں نے مفتی صاحب کے لیے ایجاد کر رکھی تھیں۔ ایک دن مولوی صاحب کی اچھی خاصی زمین شہر کے کوتوال نے دبا لی۔
جہاں سے امید کی ہلکی سی کرن پھوٹتی تھی مولوی صاحب نے واہں دستک دی۔ سارے جہان کی خاک چھان کر بھی بات نہ بنی تو تپتی ایک دپہر میں وہ مفتی صاحب کے پاس چلے آئے۔ مفتی صاحب نے باہر جاکر انہیں خوش آمدید کہا اور بھرے دسترخوان پر ان کی بات سنی۔ پوری بات سننے کے بعد مفتی صاحب نے کہا، ’ہو جائے گا۔‘ ابھی چائے کی آخری چسکی بھی نہیں بھری تھی کہ مولوی صاحب کی زمین واگزار ہو گئی۔
مولوی صاحب جبہ سمیٹ کے نکلے تو کسی نے مفتی صاحب کے کان میں کہا، ’یہ تو وہی مولوی صاحب ہیں جو منہ بھر کے آپ کو گالیاں دیتے ہیں۔‘
مفتی صاحب نے سونف خوشبو پان کلے میں دباتے ہوئے کہا، ’عزیز کو بلاؤ دسترخوان سمیٹے۔‘
مفتی صاحب اپنی زندگی کا نامہ اپنے ساتھ لے گئے اور پیچھے صرف کچھ یادیں اور کچھ باتیں رہ گئیں۔ باتوں میں جو ایک بات میں سوچتا ہوں وہ یہ ہے کہ اِن گزرے ہوئے برسوں میں ہماری زندگی کیا سے کیا ہو گئی۔ حرم سے ہم چلے تھے اور مے کدے میں آکر بیٹھ گئے۔ اس پورے عرصے میں بہت کچھ ہاتھ سے نکل گیا اور بہت کچھ بدل گیا۔ نہیں بدلیں تو دو چیزیں نہیں بدلیں۔ مفتی نعیم کا اِس غریب کے ساتھ رویہ نہیں بدلا اور فرحان کی دوستی نہیں بدلی۔
اس دوستی کا کچھ اندازہ کرنا ہو تو اس بات سے کرلیں کہ مفتی صاحب کو گئے آج چھ دن ہوگئے ہیں اور میں فرحان سے تعزیت نہیں کر پایا ہوں۔