پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں نے تحریک انصاف حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش قبول کرتے ہوئے ریاست کے ان تمام اداروں اور شخصیات کو اس عمل میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو ان کے مطابق ملک میں مبینہ طالبان پراجیکٹ کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔
یہ بات پی ٹی ایم سربراہ منظور پشتین نے اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کے ہمراہ جمعے کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں کہی۔
اس موقع پر پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے کہا کہ ماضی کے مذاکرات کی ناکامی کی مثالوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پختون قوم مزید ظلم اور تشدد برداشت نہیں کر سکتی اور اب ریاست کو ہر صورت پختونوں کی سرزمین پر امن قائم کرنا ہو گا۔
منظور پشتین کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں مذاکرات کی تمام کوششیں اس لیے ناکام ہوئیں کہ ریاست کے وہ ستون جو ہمارے مطالبات کے سلسلہ میں اہم ہیں کو بات چیت کے عمل میں شامل نہیں کیا گیا۔ ‘
بعد میں منظور پشتین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ (حکومت) سنجیدہ ہو یا غیر سنجیدہ ہم جنگوں کے مارے لوگوں کے لیے امن کی قیمت اتنی ہے کہ پھر بھی اعتماد کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔‘
’ایک طرف سینکڑوں ایف آئی آر کاٹی گئی ہیں، ہمارے دوست جیلوں میں ہیں، اب بھی تشدد جاری ہے۔ ایک طرف آپ نے کانٹے بچھائے ہیں اور راستے میں آپ کہتے ہیں کہ آئیں یہاں بیٹھتے ہیں۔‘
منظور پشتین نے کہا کہ ’ایسے تو سنجیدگی نظر نہیں آئے گی، پہلے وہ کانٹے تو ہٹائیں راستے سے۔‘
خیال رہے کہ پاکستان کے وزیر دفاع پرویز خٹک نے پشتون تحفظ موومنٹ کو ایک مرتبہ پھر رواں ماہ مذاکرات کی پیشکش کی تھی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی ایم اگر مذاکرات کی میز پر حکومت کے ساتھ بیٹھنا چاہتی ہے تو حکومت اس کے لیے تیار ہے۔‘
پی ٹی ایم کے سربراہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مذاکرات کی دعوت قبول کر لی ہے۔ تاہم آزادی اظہار رائے اور احتجاج کرنے کی آزادی سے متعلق کوئی قدغن برداشت نہیں کی جائے گی۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئی ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہا کہ اس وقت پاکستان اور ’خصوصاً پختون قوم تاریخ کے بدترین وقت سے گذر رہے ہیں اور ریاست عوام کے حقوق کے تحفظ میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ بولنے والوں کو غدار اور مخالفت کرنے والوں کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ وفاقی حکومت مذاکرات سے متعلق کتنی سنجیدہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محسن داوڑ نے مزید کہا کہ اگر حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو ’یہ طالبان پراجیکٹ اور سپانسرڈ گروپس والی پالیسیاں اور سٹریٹجیز ختم کرنا ہوں گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’طالبان پراجیکٹ کی تصدیق کئی فوجی جرنیل کر چکے ہیں جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے اسامہ بن لادن کو قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران شہید کہہ کر اس حقیقت پر مہر ثبت کر دی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ملک کی معیشت تباہی کے دھانے پر پہچ چکی ہے اور اس کی بڑی وجہ دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں کی ’ریاستی اداروں‘ کی جانب سے ’حمایت‘ فراہم کرنا ہے۔
’امن کے بغیر ملکی معیشت بہتر نہیں ہو سکتی اور اس وقت معیشت کو سیدھی راہ پر ڈالنا بہت ضروری ہے اور ایسا امن کے بغیر ممکن نہیں ہے۔‘
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے میڈیا اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کو مذاکرات کے دوران حکومت اور ریاستی اداروں پر نظر رکھنے کا کہا۔
انہوں نے کہا کہ ’ریاست اور عوام کے درمیان عمرانی معاہدہ آئین کی شکل میں موجود ہوتا ہے اور آہین کی موجودگی میں مذاکرات کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کے پاس نادر موقع ہے جس سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ بجائے غداری کے الزامات لگانے کے سنجیدگی سے مذاکرات کرنا چاہیں۔