پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین نے تقریباً ایک ہفتے بعد وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کے توسط سے مذاکرات کی حکومتی پیشکش پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت پشتونوں کے مسائل کے حل کے لیے ہر وقت بات چیت کے لیے تیار ہے تاہم یہ مذاکرات با معنی اور بامقصد ہونے چاہییں۔
وزیر دفاع پرویز خٹک نے پی ٹی ایم کو مذاکرات کی پیشکش 14 جون کو کی تھی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ 'پی ٹی ایم اگر مذاکرات کی میز پر حکومت کے ساتھ بیٹھنا چاہتی ہے تو حکومت اس کے لیے تیار ہے۔'
اسی حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے کہا کہ 'پشتون تحفظ موومنٹ نے کبھی بھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا، پہلے بھی اس کے لیے تیار تھے اور اب بھی پشتونوں کے مسائل پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔'
تاہم ماضی میں حکومت کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں حکومت نے مذاکرات میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا جس کی مثالیں موجود ہے۔
منظور پشتین نے بتایا: '2018 میں جب ہم حکومت کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے تو ہمارے ساتھیوں کو مارا گیا اور ان کے خلاف پرچے کاٹے گئے۔ اسی طرح 2019 میں جب ہم دوبارہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے تو وزیرستان میں خڑ کمر چیک پوسٹ کا واقعہ پیش آگیا اور ابھی تک ذمہ داروں کو کوئی سزا نہیں ملی۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'ماضی میں حکومت کی غیر سنجیدگی کا ایک ثبوت یہ بھی تھا کہ ہمارے ساتھ ایک گروپ نہیں بلکہ مختلف جرگے آکر بات کرتے تھے اور ہمیں پتہ نہیں چلتا تھا کہ اس میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی کون سی ہے اور ان کا مذاکرات میں ہونے والے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے میں کتنا کردار ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پشتین نے تجویز دی کہ 'کسی بھی مذاکرات یا کسی بھی مسئلے میں دو فریقین کے مابین اگر کسی قسم کی بات چیت ہوتی ہے تو اس سے پہلے اعتماد کی فضا قائم ہونی چاہیے۔ حکومت کو پہلے پی ٹی ایم کے ساتھیوں کو اعتماد میں لینا چاہیے اور اس کے بعد اگر مذاکرات ہوں گے تو وہ با معنی ہوں گے اور پی ٹی ایم کو بھی اس بات کا ادراک ہوگا کہ حکومت اگر مذاکرات کر رہی ہے تو اس کا بنیادی مقصد کیا ہے۔'
انہوں نے حکومتی رویے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 'پہلے تو حکومت کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ وہ پی ٹی ایم کو کس نظر سے دیکھتی ہے، یعنی کیا حکومت پی ٹی ایم کو پشتونوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی ایک تنظیم سمجھتی ہے پھر کسی ملک یا بیرون ملک ادارے کے ایجنٹس۔'
پشتین کا کہنا تھا: 'اعتماد کی فضا اگر قائم ہوگی تو اس کے بعد ہونے والے مذاکرات کا کوئی مقصد نکل آئے گا۔'
کیا پی ٹی ایم کے مطالبات تبدیل ہوتے رہے ہیں؟
ماضی کے اور حالیہ مطالبات کے حوالے سے سوال کے جواب میں منظور پشتین نے بتایا کہ 'مطالبات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے لیکن یہ ضرور ہوا ہے کہ پہلے ہم ایک خاص علاقے کے حقوق کی بات کرتے تھے اور اب اس یہ دائرہ کار وسیع ہوگیا ہے۔'
ان کا کہنا تھا: 'پہلے ہماری تحریک کا نام محسود تحفظ موومنٹ تھا جو زیادہ تر وزیرستان کے مسائل پر بات کرتی تھی لیکن اب پاکستان کے جس علاقے میں بھی پشتون موجود ہیں، ہم ان کے جائز حقوق کی بات کرتے ہیں اور یہ ہمارا حق ہے کہ ہم دہشت گردی سے متاثرہ کسی بھی پشتون کے حقوق کی بات کریں۔'
انھوں نے بتایا کہ 'ماضی میں ماورائے عدالت ہلاکتیں کسی خاص علاقے تک محدود تھیں لیکن اب پورے خیبر پختونخوا میں بے گناہ افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم اب پورے خیبر پختونخوا کی بات کریں گے اور ہمارے مطالبات یہ ہوں گے کہ پشتونوں کو ان کے حقوق دیے جائیں۔'
حکومت اگر پارلیمانی سیاست میں آنے کا مطالبہ کرے تو پی ٹی ایم کا کیا موقف ہوگا؟
اس سوال پر منظور پشتین کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کا پارلیمانی سیاست میں آنا یا نہ آنا تنظیم کا صوابدیدی اختیار ہے اور اگر حکومت پشتونوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے پی ٹی ایم سے پارلیمانی سیاست میں آنے کا مطالبہ کرے گی تو یہ بے مقصد بات ہوگی کیونکہ آئین پاکستان میں ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'اس صوبے میں لاکھوں پشتون رہتے ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متاثر ہوئے ہیں، ان کو حقوق دلانے کے لیے پارلیمانی سیاست میں آنے کی کیا ضرورت ہے اور نہ یہ آئین میں موجود ہے کہ اگر شہری اپنے حقوق مانگیں گے تو ان کو پارلیمانی سیاست میں آنا ہوگا۔'
حالیہ مذاکرات کی پیشکش کے حوالے سے پی ٹی ایم کا کیا پلان ہے؟
جب منظور پشتین سے پوچھا گیا کہ کیا پرویز خٹک کے ذریعے مذاکرات کی پیشکش کے بعد حکومت کی طرف سے مذاکرات کے آغاز کے لیے کوئی رابطہ کیا گیا؟ تو انہوں نے بتایا کہ 'میں کئی دنوں سے اپنے علاقے میں موجود تھا، جہاں پر موبائل سگنل تو کیا لینڈ لائن فون کی سہولت بھی موجود نہیں ہے اور اسی وجہ سے ابھی تک اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس پر بات کرنے کے حوالے سے نہیں بیٹھا ہوں۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ 'ابھی گاؤں سے واپسی ہوئی ہے تو ایک دو دن میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ رابطہ کرکے اس پیشکش کے بعد آنے والی صورت حال پر بات چیت کریں گے اور اس کے لیے لائحہ عمل بنائیں گے۔'
اب تک حکومت نے کون سے مطالبات مانے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں منظور پشتین نے بتایا کہ 'چیک پوسٹوں پر پشتونوں کو بہت زیادہ مسائل تھے اور ان کو بے جا تنگ کیا جا رہا تھا، وہ مسئلہ بہت تک حل ہوگیا ہے اور اب اس قسم کے مسائل چیک پوسٹوں پر نظر نہیں آ رہے ہیں۔'
لاپتہ افراد کے بارے میں پشتین نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے اس مطالبے پر کچھ حد تک عمل درآمد کیا گیا ہے اور بہت سے لاپتہ افراد کو رہا کیا گیا ہے لیکن قانونی طریقے سے نہیں، کیونکہ ہمارا مطالبہ یہ تھا کہ لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے اور اگر کوئی بے گناہ ہو تو اسے رہا کیا جائے اور جو جرائم میں ملوث ہیں ، ان کو سزا دی جائے۔'
وزیرستان میں لینڈ مائن کے حوالے سے مںظور پشتین کا کہنا تھا کہ 'ہمارا ایک مطالبہ باردوی سرنگوں کو صاف کرنے کا تھا اور اس حوالے سے حکومت دعویٰ تو کر رہی ہے کہ ان کے خاتمے کے لیے کام جاری ہے تاہم اب بھی وزیرستان میں بہت سی جگہوں پر لینڈ مائنز موجود ہیں، جن سے وہاں کے رہائشی افراد کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔'
سال 2014 میں قائم ہونے والی محسود تحفظ موومنٹ کو جنوری 2018 میں کراچی میں ایک مبینہ جعلی مقابلے میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ کا نام دے دیا گیا۔ اس تنظیم نے پشتونوں کے تحفظ اور ان کو حقوق دلانے کی بات کی اور جنوری 2018 سے اب تک ملک کے تمام بڑے شہروں میں دھرنے دے کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرچکی ہے۔
اس تنظیم نے ماضی میں ریاستی اداروں پر مختلف الزامات لگائے ہیں، جن میں شہریوں کو لاپتہ کرنے، ٹارگٹ کلنگ سمیت وزیرستان میں غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی کے الزامات سر فہرست ہیں، تاہم ریاستی اداوں اور حکومتی نمائندگان نے اس تنظیم کے الزامات کی مختلف مواقع پر تردید کی ہے۔
دوسری جانب ماضی میں پاکستانی فوج کے ترجمان نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس تنظیم کو بیرون ممالک سے فنڈنگ ملتی ہے اور یہ تنظیم ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ کے طور پر استعمال ہورہی ہے، جس کی پی ٹی ایم کی جانب سے تردید کی جاتی رہی ہے۔