ہاتھی کے چھوٹے بچوں کو ظالمانہ طریقے سے سدھانے کی اک خفیہ ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں 'دی کرش' نامی بہیمانہ طریقے سے بے زبان جانوروں کی 'تربیت' کی جاتی ہے۔
اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تربیت کے دوران ہاتھی کے بچے کو زنجیروں سے ایک تنگ جگہ پر کئی دن تک باندھ کر یہ سکھایا جا رہا ہے کہ وہ سیاحوں کو لطف اندوز کرنے کے لیے خود کو اس ماحول کے مطابق ڈھال لیں۔
بین الااقوامی تنظیم ورلڈ اینیمل پروٹیکشن کے مطابق یہ ویڈیو تھائی لینڈ میں ہاتھیوں کی تربیت کے حوالے سے تقریباً دو دہائیوں بعد اب سامنے آئی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہاتھیوں کو تربیت دینے والے معروف ٹرینر اب بھی اس طریقہ کار کو استعمال کر رہے ہیں۔
اس ویڈیو میں ہاتھیوں کو اپنی ماں سے الگ ہوتے اور چیختے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس عمل کے دوران انہیں رسیوں سے باندھ کر لوہے کے ہکس اور نوکیلی لکڑیوں سے کچوکے بھی لگائے جا رہے ہیں۔
دسمبر 2018 سے جنوری 2020 کے درمیان ریکارڈ ہونے والی اس ویڈیو میں تھائی لینڈ میں موجود آٹھ ہاتھی کے بچوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔
اس میں انہیں ظالمانہ طریقہ کار 'کرش' کا نشانہ بنتے اور ہکس سے لگاتار انہیں لگنے والے کھلے زخموں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
ہاتھیوں کو مصروف سڑک پر چلنے جیسی مشکل صورت حال کا بھی عادی کیا جاتا ہے۔ مانا جاتا ہے کہ یہ تشدد ہاتھیوں کو سیاحوں کے لیے نمائش دکھانے، سواری کروانے اور نہانے کا عادی بناتا ہے۔
ڈبلیو اے پی کے مطابق اس سے قبل سامنے آنے والے واقعے کی فوٹیج کو سیاحت کی صنعت نے ایک انفرادی واقعہ کہہ کر رد کر دیا تھا۔
ایک اندازے کے مطابق تھائی لینڈ میں تقریباً 2800 ہاتھیوں کو مختلف کیمپوں میں مقید رکھا جا رہا ہے۔
ڈبیلو اے پی نے مقید ہاتھیوں پر اس ظالمانہ طریقہ کار کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
پابند رہنے والے زیادہ تر ہاتھیوں کو دوبارہ جنگل میں چھوڑنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے ہاتھیوں کے لیے ایک دوستانہ ماحول والا کیمپ ہی مستقل قیام گاہ ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ کیمپس صرف سیاحوں یا عام افراد کے مشاہدے کے لیے ہوتے ہیں۔ یہاں ہاتھیوں کا خیال رکھنے والے مہاوٹوں کو ملازمت دی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ورلڈ اینیمل پروٹیکشن میں وائلڈ لائف شعبے کے سربراہ اوڈرے مائیلیا کے مطابق 'طویل عرصے سے یہ ذہین، سماجی مخلوق ظالمانہ تجارت کا شکار رہی ہے جس میں بچوں کو ان کی ماؤں یا ان کے گروہ سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ جنگلوں میں ماں، بچے اور پھر ان کے بچے اپنی پوری زندگی ایک ساتھ گزار سکتے ہیں۔ اس کے بجائے انہیں ایک ایسی زندگی گزارنی پڑتی ہے جس میں انہیں بربریت اور مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ ان کا استحصال کیا جاتا ہے اور انہیں فنکار کا روپ دھارنے پر مجبور کیا جاتا ہے جس کا مقصد سیاحوں کو ان کی معصومیت سے لطف اندوز کروانا ہوتا ہے۔ سیاحوں کو یہ سوچنے پر راغب کیا جاتا ہے کہ وہ ان ہاتھیوں کی مدد کر رہے ہیں اور ان کی نسل کو بچانے میں مدد کر رہے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ ظالمانہ سرگرمیوں کو فروغ دے رہے ہوتے ہیں۔'
© The Independent