بلیاں پالنے والے ایسے مردوں کے لیے بری خبر ہے جو ڈیٹنگ ایپس پر اپنے ساتھی کی تلاش میں ہیں۔
نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ڈیٹنگ ایپس پر خواتین بلیوں کے ساتھ تصویروں میں نظر آنے والے مردوں کو کم ہی ’سوائپ رائٹ‘ کرتی ہیں۔
کولوراڈو سٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی جانب سے انجام دی گئی ایک تحقیق کے مطابق جن مردوں نے ڈیٹنگ ایپس پر اپنی پروفائل پکچرز میں بلیوں کو تھام رکھا ہے، انہیں کم مردانہ اوصاف کا مالک، نفسیاتی اور ڈیٹ کے لیے کم پسندیدہ تصور کیا جاتا ہے۔
اس مطالعے کے لیے ایک ہزار 380 سے زیادہ افراد کا سروے کیا گیا۔
18 سے 24 سال کی عمر کی خواتین کو ایک ہی نوجوان مرد کی دو مختلف تصاویر دکھائی گئیں۔
سفید بیک گراؤنڈ میں بنائی گئیں دونوں تصاویر میں ان کے سیاہ بال تھے اور انہوں نے نیلے رنگ کی شرٹ پہن رکھی تھی۔
تاہم فرق صرف یہ تھا کہ ایک تصویر میں وہ ایک ٹیبی بلی کے ساتھ پوز کر رہے تھے جب کہ دوسری تصویر میں ان کے ساتھ بلی موجود نہیں تھی۔
اس کے بعد خواتین سے کہا گیا کہ وہ ان دو مردوں کی مختلف صفات بشمول مردانگی، ڈیٹ کے قابل اور یہ کہ کیا وہ اس شخص کے ساتھ مختصر یا طویل مدتی تعلقات کے لیے غور کریں گی، کے طور پر درجہ بندی کریں۔
تحقیق میں ثابت ہوا کہ مجموعی طور پر انہیں بلی کے ساتھ زیادہ منفی ووٹ ملے جب کہ بلی کے بغیر بہتر سمجھا گیا۔
تاہم بلی کے اضافے کے ساتھ کچھ مثبت خصوصیات کا بھی پتہ چلا جیسا کہ ایسے مرد زیادہ وسعت ذہن کے حامل اور مصلح طبیعت سمجھے جاتے ہیں۔
اکیلی تصویر کے مقابلے میں بلی کو تھامے رکھنے سے وہ شخص زیادہ دوستانہ اور پُراعتماد دکھائی دیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا کہ اس مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کالج کی عمر کی خواتین بلی کے ساتھ شخص کو کم مردانہ خصلت کا مالک سمجھتی ہیں۔
اس میں مزید کہا گیا: ’پھر یہ بھی نوٹ کرنا ضروری ہے کہ یہ نتائج ایسی خواتین سے متاثر تھے جن کو ذاتی طور پر کتے پسند تھے یا پھر بلیاں۔
امریکی ثقافت میں ’کیٹ مین‘ کو کم مردانگی کا حامل شخص سمجھا جاتا ہے شاید اسی لیے مطالعے شامل اس ایج گروپ کی خواتین نے ’ڈاگ مین‘ کو ترجیح دی ہو۔‘
’ان نتائج سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پالتو جانور خواتین کے پارٹنرز کے انتخاب اور ڈیٹنگ کی ترجیحات میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں لیکن یہ کہ پالتو جانوروں کی مختلف انواع کے اثرات پر گہری نظر ڈالنے کی بھی ضرورت ہے۔‘
© The Independent