رنگ اور خوشبو کی وجہ سے پاکستانی آموں میں اپنی ایک الگ پہچان کا حامل چونسہ، جو جنوبی پنجاب کی سوغات ہے، بس اب ملتان میں کچھ ہی دنوں بعد آنے کو تیار ہے۔
اگرچہ رحیم یار خان سے چونسہ آم مارکیٹ میں آ چکا ہے تاہم رواں سال کرونا وائرس کے باعث انٹرنیشنل فلائٹس بند ہونے کے باعث دیگر ملکوں میں مقیم چونسے کے شوقین اس سے محروم رہیں گے اور رہی سہی کسر پی آئی اے کی پروازوں پر مختلف ممالک میں پابندی سے پوری ہو جانے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
لطف آباد فارم اینڈ ایچ ڈبلیو ٹی فیکلٹی پاکستان کے سی ای او طارق خان بتاتے ہیں کہ موجودہ حالات میں 80 فیصد چونسہ آم مقامی مارکیٹ میں ہی فروخت کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے رواں سال ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔
رنگ، خوشبو، مٹھاس اور منفرد ذائقے کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور پاکستانی آم کو دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے تاہم پھلوں کے بادشاہ کو کرونا وائرس کے ساتھ ساتھ رواں سال موسمی تغیرات کا بھی سامنا ہے اور رواں سال اس کی پیداوار بھی کم ہوئی ہے۔
آم کی ایکسپورٹ کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو تو تقریباً 50 فیصد پاکستانی آم مشرق وسطیٰ، سعودی عرب اور فار ایسٹ کے ممالک میں جاتا ہے جبکہ 20 فیصد ایران، افغانستان اور 25 فیصد کے قریب یورپ اور امریکہ بھیجا جاتا ہے، تاہم اس بار انٹرنیشنل پروازیں بند ہونے کی وجہ سے کارگو فلائٹس جا رہی ہیں اور ان کا کرایہ بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے ایکسپورٹرز کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پاکستان سے آم متحدہ عرب امارات، ایران، افغانستان، امریکہ اور یورپ سمیت دیگر ممالک میں بحری، فضائی اور زمینی راستوں سے ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔
رواں سال آموں کی برآمدات میں کمی کے باعث باغات والے بھی پریشان ہیں۔
ملتان کے رہائشی ملک شہباز نے بتایا کہ ان کی 15 ایکٹر اراضی پر آم کے باغات ہیں، جہاں چھ سے سات قسم کے آموں کی پیداوار ہوتی ہے لیکن اس سال دو وجوہات کی وجہ سے انہیں خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ان میں ایک وجہ یہ ہے کہ اس سال گرمیاں دیر سے آئی ہیں اور نمی کے باعث آم کی فصل کو کیڑا لگ گیا ہے۔ ہمیں سپرے بھی زیادہ کرنا پڑا تاہم اس کے باوجود پیداوار گذشتہ سال کی نسبت کم ہوئی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’دوسری اور اہم وجہ کرونا وبا ہے اور اس کی وجہ سے ہمارا ملتانی سرائیکی خطے کا آم باہر کے ممالک میں نہیں جا سکا، کیونکہ پروازیں وغیرہ بند تھیں اور اس سے ہمیں جو نقصان ہوا اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ سال ہم نے باغ 20 لاکھ روپے پر فروخت کیا تھا اور رواں سال نو سے سوا نو لاکھ میں فروخت کرنا پڑا۔‘
ملک شہباز کے مطابق: ’اس سال آم بیرون ممالک نہیں بھیجے گئے اور پاکستان میں جو آم سپلائی ہو رہے ہیں، اس کے ریٹ بہت کم ہیں جس سے ہمارا نقصان پورا نہیں ہو سکتا۔‘
آم کی پیکنگ کرنے والے محمد منظور حسین کہتے ہیں کہ کرونا وائرس اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث انہیں بھی شدید نقصان ہوا ہے جبکہ مزدوری بھی ماضی کی نسبت کم لگی ہے۔
’جہاں پہلے 40 بندے کام کرتے تھے، اس سال 20 لوگوں نے کام کیا ہے۔‘