ایران میں حالیہ حملے اتفاقیہ واقعات ہیں یا ایک مربوط سبوتاژ مہم؟

’یہ حملہ ایران کے جوہری اور میزائل پروگراموں کے لیے ایک سخت پیغام ہے اور یہ کہ ان کے آپریشن اور اہداف اب خفیہ نہیں رہے۔‘

(اے ایف پی)

مغربی تہران میں دھماکوں کے نتیجے میں بجلی کا نظام تباہ ہوگیا۔ بیلسٹک میزائل کے کارخانے میں آتش زدگی، ایرانی دارالحکومت کے شمال میں ایک کلینک میں خوف ناک دھماکہ اور ملک کے ایک اہم ترین جہاز رانی کے مراکز میں زبردست سیلاب۔

یہ بظاہر الگ الگ واقعات ہیں جو حال ہی میں ایران میں پیش آئے، خاص طور پر فوجی، ایٹمی اور صنعتی مراکز پر حملوں کو حکومت نے چھپانے کی کوشش کی یا انہیں بدقسمتی سے ہونے والے حادثات کے طور پر بیان کیا گیا۔

لیکن جب دو جولائی کو ہونے والے ایک دھماکے سے اصفہان میں ناتانز جوہری تحقیقاتی مرکز کو مفلوج بنا دیا گیا تو تہران حکومت کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ اس کے جوہری افزودگی کے پروگرام کو نشانہ بنایا گیا ہے جو سبوتاژ عمل کا حصہ ہے۔

ماہرین کے مطابق اس اعتراف نے واقعات کے سارے سلسلے پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں جو علیحدہ علیحدہ واقعات کا سلسلہ نظر آ رہا تھا وہ درحقیقت اب سائبر اور نفسیاتی جنگ کی مربوط مہم کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔

ماہرین کے نزدیک اصل سوالات یہ تھے کہ یہ مہم کتنی اثر انگیز رہی ہے؟ اس کے پیچھے کون ہے؟ اورایرانی حکومت اس کا کیا جواب دے گی؟

عرب نیوز کے مطابق فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز سے وابستہ سینئر مشیر اولی ہینونن نے کہا ہے کہ جو بھی ناتانز تخریب کاری کا ذمہ دار ہے اس نے ایران کو واضح پیغام بھیج دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’یہ حملہ ورکشاپس کے ڈیزائن اور ان کے بارے میں تفصیلی معلومات کے بغیر ممکن نہیں تھا۔‘

’یہ حملہ ایران کے جوہری اور میزائل پروگراموں کے لیے ایک سخت پیغام ہے اور یہ کہ ان کے آپریشن اور اہداف اب خفیہ نہیں رہے۔‘

ہینونن نے کہا جو بھی اس ذمہ دار تھا وہ اس پر اکتفا نہیں کرے گا۔

انہوں نے کہا: ’جدید ترین سینٹرفیوجز کے اسمبلی پلانٹ کو نشانہ بنانا صرف ایک انتباہی عمل ہو سکتا ہے۔‘

تہران کے مضافاتی علاقے میں واقع اسلامی انقلابی گارڈز (آئی آر جی سی) کے میزائل پلانٹ میں جمعے کو ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں بجلی کی فراہمی منقطع ہوگئی تھی۔ ایرانی عہدیداروں نے اس رپورٹ کی تردید کی ہے۔ صرف تین دن قبل تہران کے جنوب میں واقع فیکٹری میں ایک اور پراسرار دھماکے کی اطلاع موصول ہوئی تھی۔

اگرچہ ابھی ناتانز میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی تفصیلات سامنے نہیں آ سکی ہیں تاہم  ماہرین کے مطابق اس سے ایران کا جوہری پروگرام دو سال پیچھے چلا گیا ہے۔

2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابین طے پائے گئے ایٹمی معاہدے کے تحت ایران کو ناتانز میں یورینیم کی افزودگی کے لیے فرسٹ جنریشن IR-1 کے پانچ ہزار سنٹرفیوجز بنانے کی اجازت دی گئی تھی لیکن ایران نے اس کے بعد جدید سنٹری فیوجز کے انبار لگا دیے جس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ 2018 میں اس معاہدے سے دستبردار ہوگئی اور ایران پر معاشی پابندیاں بحال کردی گئیں۔

ایران بار بار دھمکی دیتا رہا ہے کہ  وہ اپنے دفاعی میزائل کی صلاحیت بڑھانے کا عمل جاری رکھے گا۔

واشنگٹن میں قائم ’عرب گلف سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ‘ سے وابستہ علی الفونیہ نے ناتانز میں ہونے والے حملے اور دیگر دھماکوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ہی طرح کا پیٹرن ہے جو پچھلے کئی سالوں تک پھیلایا ہوا ہے جس میں ایران کے جوہری عزائم کو روکنے کے لیے سائبرحملے، تخریب کاری اور سائنس دانوں کو نشانہ بنانے کا استعمال کیا ہے۔

ان حملوں میں استعمال کی گئی تکنیکی نفاست اسرائیلی سائبر تخریب کاری کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

اسرائیل نے طویل عرصے سے سائبرحملوں کو ایران کے جوہری اور فوجی صلاحیت کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس میں سب سے مشہور ’سٹکس نیٹ‘ حملہ تھا جس نے ایران کے جوہری پروگرام کو پانچ سال پیچھے دھکیل دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران پر گہری نظر رکھنے والے ادارے کاراسک کے مطابق ایران کے (ایمٹی پروگرام) میں درپیش تمام نہیں تو کچھ رکاوٹوں میں  اسرائیل کا ہاتھ تھا۔ تب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تہران اس کا کیا جواب دے گا؟

چونکہ تہران کو زیادہ داخلی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا اور لوگوں کی نظر میں اس کی مقبولیت مزید ختم ہوتی جارہی ہے اس لیے حکومت کے پاس اپنی طاقت کو ثابت کرنے کا واحد راستہ گرجنا برسنا ہی بچا ہے۔

تاہم شیٹم ہاؤس سے وابستہ یوسی میکل برگ نے عرب نیوز کو بتایا کہ سائبر وارفیئر اور ایران کو مجروح کرنے کے ایسے دوسرے خفیہ طریقوں کے استعمال کرنے کا ایک فائدہ یہ تھا کہ یہ حملے قابل تردید تھے۔

انہوں نے مزید کہا: ’قطعی طور پر یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ حملوں کے پیچھے کون ہے لہذا یہ صورت حال ایران کو اپنی قانونی حیثیت بچانے اور فیس سیونگ کے لیے کسی پر جوابی حملہ کرنے پر مجبور نہیں کرتی۔‘

لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ یہ ایک انتہائی غیر مستحکم صورتحال ہے۔

’غلط اندازہ لگانے کا خطرہ ہر وقت موجود ہے۔ آپ انتقامی کارروائی کے لیے دوسرے لوگوں کی طرف دیکھ رہے ہیں جس سے غلط اندازہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔‘

ہینونن، میکیل برگ اور کاراسک سب متفق ہیں کہ ایران کے خلاف جو حکمت عملی تیار کی جارہی ہے وہ ’نفسیاتی‘ ہے۔

ایک بیرونی طاقت، بہت سے لوگوں کے نزدیک اسرائیل، ایران کو ایک واضح پیغام بھیج رہی ہے۔

کاراسک نے کہا کہ ’کوئی ایران کی قومی سلامتی کے مخصوص اہداف پر حملے کر رہا ہے، یہاں دھماکے کرا رہا ہے اور آتش زدگی کرا رہا ہے، اس کا نفسیاتی اثر پڑتا ہے۔‘

میکیل برگ کا کہنا تھا: ’کوئی ایران کو بتا رہا ہے ہم جانتے ہیں کہ آپ کہاں رہتے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے کمزور مقامات کہاں ہیں، اگر ہم آپ پر حملہ کرنا چاہیں تو ہم ایسا کر سکتے ہیں۔‘

ایران اپنے بیلسٹک میزائل اور ہتھیاروں کو اپ گریڈ کر رہا ہے اور جوہری ہتھیاروں کے حصول میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ تب یہ حیرت کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ جب اس کی کیفیت اور بھی زیادہ جارحانہ ہوجاتی ہے تو اس کے مخالفین واضح پیغام بھیج رہے ہیں کہ وہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران کے لیے کھڑے نہیں ہوں گے۔

سائبرحملے اور سبوتاژ مہم اس حکمت عملی کو کافی حد تک واضح کررہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا