بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں انجینئر سے استاد بننے والے ایک نوجوان نے مثالی پہل کرتے ہوئے پائین شہر میں واقع وسیع و عریض عید گاہ کے اندر طلبہ کو کھلے آسمان تلے پڑھانا شروع کر دیا ہے۔
انجینئر منیر عالم نامی ان استاد کے اس اقدام کو بڑے پیمانے پر سراہا جا رہا ہے اور اس سے تحریک پا کر بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے مختلف علاقوں میں بھی اساتذہ اور دیگر پڑھے لکھے نوجوانوں نے طلبہ کو کھلے میدانوں میں پڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
اہلیان کشمیر کا کہنا ہے کہ چونکہ یہاں تعلیمی ادارے اور تیز رفتار موبائل انٹرنیٹ خدمات گذشتہ برس پانچ اگست یعنی زائد از گیاہ ماہ سے بند ہیں لہٰذا ایسے میں منیر عالم کی جانب سے اٹھایا جانے والا یہ اقدام ہر لحاظ سے قابل تحسین اور باقی اساتذہ کے لیے مشعل راہ ہے۔
منیر عالم کی جانب سے شروع کردہ اس 'اوپن ایئر سکول' کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی کلاسز صبح پانچ بجے اُس وقت شروع ہوتی ہیں جب بھارت اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیائی ممالک میں اکثر لوگ گہری نیند سو رہے ہوتے ہیں۔
کرونا (کورونا) کی روک تھام کے لیے نافذ ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے طلبہ کو ایک دوسرے سے تین سے چار میٹر کی دوری پر بٹھایا جاتا ہے اور کلاس میں شرکت کے لیے ماسک کا استعمال لازمی ہے۔
ایک اور خاص بات یہ ہے کہ منیر عالم نے کرونا وائرس لاک ڈاؤن کے پیش نظر طلبہ سے فیس نہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
عید گاہ کے ایک کونے میں تاریخی عالی مسجد کے نزدیک 'اوپن ایئر سکول' یا 'دوبدو کلاسز' شروع کرنے والے انجینئر منیر عالم نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سری نگر سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرچکے ہیں۔
لیکن انہوں نے اپنے شعبے کی بجائے بچوں کو پڑھانے کا پیشہ اختیار کیا ہے اور گذشتہ دو دہائیوں سے اسی پیشے کے ساتھ وابستہ رہ کر طلبہ کو ریاضی پڑھا رہے ہیں۔
منیر عالم نے طلبہ کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے رفیق احمد بٹ نامی ایک اور انجینئر کی خدمات حاصل کی ہیں جو بچوں کو طبیعیات (فزکس) پڑھاتے ہیں۔ اس طرح سے عید گاہ میں منیر اور رفیق مل کر گیاہویں اور بارہویں جماعت کے طلبہ کو ریاضی اور طبیعیات پڑھا رہے ہیں۔
منیر عالم اور رفیق احمد دونوں سری نگر کے مضافاتی علاقوں بالترتیب ملہ باغ اور ایچ ایم ٹی سے تعلق رکھتے ہیں جو عید گاہ سے کم از کم چھ کلو میٹر کی دوری پر واقع ہیں جبکہ اکثر طلبہ وہ ہیں جو دور دور سے حصول علم کے لیے علی الصبح ہی عید گاہ پہنچ جاتے ہیں اور صبح سات بجے سورج کی تپش بڑھنے سے قبل ہی اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے ہیں۔
کلاسز کیسے شروع ہوئیں؟
انجینئر منیر عالم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے تین ماہ قبل طلبہ کو آن لائن پڑھانے کی کوشش کی جو حکومت کی طرف تیز رفتار موبائل انٹرنیٹ خدمات پر جاری پابندی کی وجہ سے بارآور ثابت نہیں ہوئی۔
پھر انہوں نے طلبہ کو شفٹس میں اپنے گھر بلایا جہاں ان کے لیے کرونا وبا کی روک تھام کے لیے جاری ایس او پی پر سخت سے عمل درآمد کروانا مشکل بن گیا۔
منیر عالم کہتے ہیں: 'کشمیر میں 2008 سے 2020 تک ہمیں سات بڑی احتجاجی تحریکیں دیکھنا پڑی ہیں۔ اس دوران شعبہ تعلیم پر اتنا برا اثر پڑا ہے کہ انسان عاجز آجاتا ہے۔
'میرے لیے طلبہ سے دور رہنا مشکل ہے۔ میں نے تین ماہ قبل ٹو جی پر آن لائن کلاسز شروع کیں لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ طلبہ ایجوکیٹ کم اور کنفیوز زیادہ ہوجاتے تھے۔
'جب مجھے لگا کہ آن لائن کلاسز کارآمد ثابت نہیں ہورہی ہیں تو میں نے طلبہ کو مختلف شفٹس میں اپنے گھر بلایا۔ اس میں یہ مسئلہ درپیش آیا کہ چونکہ طلبہ کی تعداد زیادہ تھی اس وجہ سے کرونا سے بچاؤ کے ایس او پیز پر عمل درآمد مشکل بن گیا۔'
منیر عالم جنہوں نے بقول ان کے گذشتہ دو دہائیوں کے دوران بیس سے پچیس ہزار طلبہ کو پڑھایا ہے، کہتے ہیں: 'میں نے اپنے طلبہ سے کہا کہ اگر میں آپ کو کہیں پر کھلے میدان میں پڑھاؤں گا تو کیا آپ اس کے لیے تیار ہیں؟'
'طلبہ زیادہ سوچے بغیر اس کے لیے تیار ہوئے لیکن میں نے ان سے کہا کہ حکومت نے کرونا سے بچاؤ کے لیے جو ایس او پیز بنائے ہیں ہمیں ان سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر ایک مثال قائم کرنی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
'میں نے طلبہ سے کہا کہ ماسک اور سینیٹائزر تو ساتھ رکھنے ہی ہیں لیکن جہاں تک سماجی دوری کا تعلق ہے اگر حکومت دو میٹر کا فاصلہ رکھنے کے لیے کہتی ہے تو ہمیں تین چار میٹر فاصلہ رکھنا ہے۔
'کسی کو کسی کے ساتھ مصافحہ نہیں کرنا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جہاں پر آپ بیٹھیں گے آپ چٹائی یا کم وزن والی کرسی اپنے گھر سے لائیں گے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ طلبہ ایک دوسرے کی چٹائیاں اور کرسیاں استعمال نہ کریں۔'
منیر عالم کے مطابق: 'پہلے دو دن مجھے صحیح جگہ ڈھونڈنے میں لگے۔ عید گاہ ایک وسیع و عریض میدان ہے جہاں عید کے موقعوں پر تین لاکھ فرزندان توحید نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں انسان عملاً کھو جاتا ہے۔
'چونکہ عید گاہ میں صبح کے وقت سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جاگنگ اور چہل قدمی کرنے کے لیے آتے ہیں اس لیے مجھے ایک الگ تھلگ جگہ کا انتخاب کرنا پڑا تاکہ طلبہ ڈسٹرب نہ ہوں۔
'طلبہ آتے گئے اور سب نے ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کیا۔ عید گاہ میں ہماری کلاسز صبح پانچ بجے ہی شروع ہوجاتی ہیں۔ پہلے ہم نے بارہویں جماعت کے طلبہ کو پڑھایا اور اب گیارہویں جماعت کے طلبہ کو بھی پڑھانے لگے ہیں۔
'صبح سویرے جو طلبہ کلاسز میں شرکت کے لیے عید گاہ پہنچتے ہیں ان کے چہرے کھلے ہوتے ہیں۔ تیس بچوں سے شروع کر کے ہم آج 70 بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ زیادہ بچے دور دور سے ہی آتے ہیں۔
'کچھ بچے صبح دس دس کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے کلاس میں شرکت کرنے کے لیے آتے ہیں۔ وہ کب نیند سے اٹھتے ہوں گے؟ میں ان طلبہ اور ان کے والدین کو سلام پیش کرتا ہوں۔'
کسی کو تو پہل کرنی تھی
منیر عالم کا کہنا ہے کہ کشمیر میں بچوں کا بے حد تعلیمی نقصان ہورہا ہے اور ایسے میں کسی نہ کسی کو پہل کرنی تھی۔
'اب سوال یہ ہے کہ میں کیوں گھر سے نکلا۔ دراصل اپنے طلبہ جو ڈپریشن کا شکار ہورہے تھے کو دیکھ کر میں خود ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہوچکا تھا۔ مجھے نیند بھی نہیں آتی تھی۔ میں جب طلبہ کو پڑھاتا ہوں تو مجھے سکون مل جاتا ہے۔
'پانچ اگست 2019 سے آج کے دن تک طلبہ صرف پندرہ دنوں تک ہی سکول، کالج یا یونیورسٹی جا پائے ہیں۔ اس کا طلبہ پر یہ اثر ہوا ہے کہ وہ ذہنی طور پر پریشان اور بیمار ہوچکے ہیں۔ ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔'
'کسی نہ کسی کو پہل کرنی تھی۔ جس کو اپنی قوم کا درد ہوگا اس کو نیند نہیں آئے گی۔ وہ ضرور کچھ کرے گا۔ میں علی الصبح ساڑھے تین یا پونے چار بجے ہی بستر چھوڑتا ہوں اور نماز فجر ادا کرنے کے فوراً بعد عید گاہ کی طرف روانہ ہوجاتا ہوں۔'
منیر عالم کے مطابق کشمیر جیسی جگہ پر آن لائن ایجوکیشن تقریباً ناممکن ہے کیونکہ بقول ان کے آج انٹرنیٹ چل رہا ہے مگر کل ہوگا یا نہیں اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔
'یہاں آن لائن پڑھانے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ حائل ہے کہ اگر آپ کی کل کلاس ہے تو کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ کل انٹرنیٹ ہوگا۔ کوئی معمولی واقعہ پیش آتے ہی ٹو جی انٹرنیٹ بھی بند کیا جاتا ہے۔
'انٹرنیٹ بند کرنے کا یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ اس کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کس چیز کا غلط استعمال نہیں ہوتا ہے۔ کیا آپ وہ سب چیزیں بھی بند کرتے ہیں؟'
'ٹو جی رفتار پر آن لائن پڑھانا طلبہ کے ساتھ ایک بہت بڑا مذاق ہے۔ اب جو اساتذہ طلبہ کو پڑھانے میں کامیابی حاصل کر رہے ہیں انہیں میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ہر ایک کے پاس عید گاہ سری نگر جیسی جگہ نہیں ہے۔ لیکن انہیں بھی اپنے اپنے علاقوں میں جگہ ڈھونڈنی چاہیے اور وہاں ایس او پیز کا سختی سے خیال رکھتے ہوئے طلبہ کو پڑھانا چاہیے۔'
یہ پوچھے جانے پر کہ 'کیا عید گاہ میں بچوں کو پڑھانے پر کسی نے اعتراض تو نہیں کیا؟' تو منیر عالم کا کہنا تھا: 'الٹا یہ ہوا کہ محلہ کمیٹی کے عہدیدار میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ کو جس چیز کی بھی ضرورت پڑے آپ بلا جھجھک مانگیں۔ '
'انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر کسی دن بارش ہوگی تو آپ عالی مسجد کا استعمال کرسکتے ہیں۔ اس سے ہمارا حوصلہ بڑھ گیا۔ شروع میں ہم بھی ڈرے ہوئے تھے۔ ہمیں خدشہ تھا کہ مسئلے پیدا ہوں گے لیکن اس کے برعکس سب کچھ اچھے سے آگے بڑھ رہا ہے۔
ایک اور سوال کہ 'کیا حکومت کو طلبہ کو پڑھانے کے لیے ایسی کوششیں نہیں کرنی چاہیے تھیں؟' کے جواب میں منیر عالم کہتے ہیں: 'حکومت سے ہمیں کوئی امید نہیں ہے۔ ہم نے کبھی بھی حکومت کو شعبہ تعلیم کے لیے کوئی بڑا قدم اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ '
'وہ اچھا کام کریں گے ہم سراہیں گے۔ میں نے کبھی سرکاری نوکری کے لیے اپلائی ہی نہیں کیا ہے۔ میں حکومت کا انتظار نہیں کرتا ہوں۔ میں اپنے بچوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ سرکاری نوکریوں کے پیچھے نہ پڑیں۔'
منیر عالم نے بتایا کہ انہوں نے کرونا لاک ڈاؤن کے پیش نظر طلبہ سے کوئی فیس نہ لینے کا فیصلہ لیا ہے۔
'ابھی مجھے ایک بچے کے والد نے فون کیا کہ ہمیں کتنی فیس ادا کرنی ہے۔ میں نے کہا کہ اس وقت ایسے حالات ہیں کہ میں اخلاقی طور پر صحیح نہیں سمجھتا کہ آپ فیس ادا کریں۔ کرونا سے پیدا شدہ حالات کی وجہ سے میں فیس نہیں لیتا ہوں۔
'میں پوری دنیا میں یہ پیغام بھیجنا چاہتا ہوں کہ نمبر ون پر آپ ایجوکیشن کا بجٹ رکھیں۔ آپ کا تعلیمی ڈھانچہ اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ وبا اور جنگ کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیے۔ ایک آدمی اٹھ کھڑا ہوا تو انقلاب لاسکتا ہے۔ ہمارے سامنے مہاتما گاندھی کی مثال بھی ہے۔'
کشمیری بچے ٹیلنٹ سے بھرپور
منیر عالم کا کہنا ہے کہ کشمیری بچوں میں جتنا ٹیلنٹ ہے شاید ہی آپ کو بھارت میں کہیں اور اتنا ٹیلنٹ دیکھنے کو ملے گا۔
'بدقسمتی سے یہاں حالات ایسے ہیں کہ یہ ٹیلنٹ نکھر نہیں پاتا ہے۔ اگر حالات ٹھیک ہوتے تو ہمارے طلبہ کے ٹیلنٹ کا چرچا پوری دنیا میں ہوتا۔
'میرا ایک طالب علم ہے عیسیٰ خان۔ اس نے بین الاقوامی سطح کا سیٹ امتحان صرف تین ماہ تک پڑھنے کے بعد کوالیفائی کیا۔ ان کو بوسٹن سمیت امریکہ کی متعدد یونیورسٹیوں سے داخلہ کا آفر ملا ہے۔ کہنے کا مقصد ہے کہ یہاں کے بچے کسی سے کم نہیں ہیں۔'
طلبہ کیا کہتے ہیں؟
بارہویں جماعت کی طالبہ صائمہ حمید کا کہنا ہے کہ وہ ایک سال میں صرف پندرہ دن ہی سکول جا پائی ہیں اور منیر عالم و رفیق احمد کی کلاسز ان کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہورہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں: 'میں ذاتی طور پر اپنے اساتذہ رفیق سر اور منیر سر کی بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے یہ قدم اٹھایا جس کی وجہ سے ہمارا مستقبل خراب ہونے سے بچ گیا ہے۔ ہم پچھلے سال سے لاک ڈاؤن میں ہیں۔ یہاں کرفیو بھی نافذ تھا۔ ہم ایک سال میں صرف پندرہ دن ہی سکول جا پائے ہیں۔'
افاز نامی ایک اور طالب علم نے بتایا: 'یہ کلاسز ہمارے لیے کافی فائدہ مند ثابت ہورہی ہیں۔ ٹو جی انٹرنیٹ رفتار پر آن لائن پڑھنا ہمارے لیے ناممکن ہے۔
'اگرچہ تعلیمی اداروں نے زوم کلاسز شروع کی ہیں لیکن وہاں سمجھ ہی نہیں آتا ہے کہ استاد کیا پڑھا رہے ہیں اور ہم کیا سمجھ رہے ہیں۔'