بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس کے مطابق رواں ماہ کی 13 تاریخ کو وسطی ضلع گاندربل کے نارہ ناگ کنگن میں ٹریکنگ کے دوران لاپتہ ہونے والے جواں سال کشمیری پی ایچ ڈی سکالر ہلال احمد ڈار نے عسکری تنظیم حزب المجاہدین کی صفوں میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
تاہم دارالحکومت سری نگر کے مضافاتی علاقے بمنہ سے تعلق رکھنے والے اس پی ایچ ڈی سکالر، جن کے والدین پہلے ہی انتقال کرچکے ہیں، کے قریبی رشتہ داروں کا اصرار ہے کہ ہلال کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتے اور وہ ان کے لاپتہ ہوجانے کو پراسرار گمشدگی سے تعبیر کررہے ہیں۔
اگر پولیس کے بیان کو صحیح مان لیا جائے تو ہلال احمد وادی کشمیر میں حالیہ برسوں کے دوران عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرنے والے چوتھے پی ایچ ڈی سکالر ہیں جبکہ ان سے قبل جن تین نوجوان سکالرز نے شمولیت اختیار کی تھی وہ تینوں مارے جاچکے ہیں۔
ہلال کیسے لاپتہ ہوئے؟
ہلال احمد ڈار، جنہوں نے بھارت بھر میں لیا جانے والا نیشنل الی جیبلٹی ٹیسٹ (این ای ٹی) پاس کیا ہے، نے گذشتہ برس یعنی 2019 میں کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ مینیجمنٹ سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کے کورس میں داخلہ لیا۔
وہ رواں ماہ کے دوسرے ہفتے میں اپنے دیگر چار دوستوں کے ہمراہ وسطی ضلع گاندربل میں واقع سیاحتی مقام نارہ ناگ کنگن ٹریکنگ اور پکنک منانے کے لیے پہنچے جہاں وہ 13 جون کو لاپتہ ہو گئے جب کہ ان کے باقی چار دوست اسی شام اپنے گھروں کو لوٹے۔
ہلال کی بازیابی کے لیے رشتہ داروں کے مسلسل احتجاج کے بعد کشمیر پولیس کے سربراہ دل باغ سنگھ اور انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار نے 23 جون کو یہاں نامہ نگاروں کو بتایا کہ مذکورہ پی ایچ ڈی سکالر نے حزب المجاہدین کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے۔
ہلال احمد کے ماموں نثار احمد کا کہنا ہے کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ انہوں نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار نہیں کی ہے۔
مگر ساتھ ہی کہتے ہیں: 'اگر پولیس کا بیان صحیح ہے تو ہم اپنے بچے سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ واپس اپنے گھر کو لوٹے۔ ہم بہت پریشان ہیں۔ پولیس سربراہ سے بھی ہماری اپیل ہے کہ اس کی بحفاظت گھر واپسی یقینی بنائی جائے۔ پولیس نے کہا ہے کہ اگر ہلال گھر واپس آیا تو ہم اس کو گرفتار نہیں کریں گے۔'ہلال کی خالہ کا بھی کہنا ہے کہ ان کا کسی تنظیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ جس کے پاس بھی ہیں وہ ان کو مہربانی کر کے صحیح سلامت واپس گھر بھیجیں۔
'ہم گورنر سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہلال کو ڈھونڈنے میں ہماری مدد کریں۔ ہم غریب لوگ ہیں۔ اس کو اپنے بڑے بھائی نے اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر پالا پوسا ہے۔ ہلال کے ماں باپ کا شوق تھا کہ وہ ایک سکالر بنے اور ہمارا نام روشن کرے۔ وہ اس وقت قبر میں تڑپ رہے ہوں گے۔'
کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ مینیجمنٹ اسٹیڈیز کے سربراہ پروفیسر اقبال حکیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہلال ایک ذہین اور قابل طالب علم ہیں، جن کے لاپتہ ہوجانے کا شعبے سے وابستہ تمام افراد کو گہرا دکھ اور افسوس ہے۔
'وہ نیٹ کوالیفائیڈ ہیں۔ انہیں گذشتہ سال یہاں پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلہ ملا تھا۔ انہوں نے ایم بی اے کی ڈگری بھی یہیں سے کی ہے۔'
سکالرز بندوق کیوں اٹھاتے ہیں؟
جب انڈپینڈنٹ اردو نے کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کی سابق پروفیسر اور کشمیر سینٹر فار سوشل اینڈ ڈیولپمنٹ سٹڈیز کی چیئرپرسن ڈاکٹر حمیدہ نعیم سے پوچھا کہ پڑھے لکھے اور پی ایچ ڈی سکالرز کی جانب سے بندوق اٹھانے کی کیا وجہ ہے تو ان کا کہنا تھا: 'یہ انتہائی مایوسی اور بے بسی کا شاخسانہ ہے۔'
'یہاں کے نوجوان غالباً یہی سوچتے ہیں کہ چلو لڑتے لڑتے ہی مرجائیں۔ اس (حکومت) نے ہم پر ہر طرف سے حملے کیے۔ ہمارا سب کچھ چھین لیا۔ یہ زمین اب فروخت پر ہے۔ یہ نئے ڈومیسائل قانون کی آڑ میں کروڑوں غیر مقامی لوگوں کو یہاں کی شہریت دیں گے تو ہمارا اپنے نوجوانوں کا کیا مستقبل ہے؟'
ڈاکٹر حمیدہ نعیم نے بتایا کہ اگر ہماری ان بچوں تک رسائی ہوتی تو ہم ان سے کہتے کہ وہ اپنی جانیں بچائیں اور عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل نہ ہوجائیں۔
ان کا کہنا تھا: 'کشمیری میں کہتے ہیں نا جگرس چھہ شراکہ وسان (جگر پارہ پارہ ہوجاتا ہے)۔ میرا بھی یہی حال ہے۔ متہ چھہ جگرس شراکہ وسان (میرا جگر بھی پارہ پارہ ہو رہا ہے)۔ لیکن کریں کیا، ہم تو بے بس ہیں۔ ہم کچھ بھی نہیں کر پاتے ہیں۔'
'اگر ہماری ان بچوں تک رسائی ہوتی تو ہم ان سے کہتے کہ آپ اپنی جانیں بچائیں۔ کیوں کہ انسان اس فورس کے ساتھ لڑ سکتا ہے جس کی کچھ اقدار ہوں۔ جو انسانی زندگیوں کی قدر کرتی ہو۔ جس میں یہ سمجھ ہو کہ بندوق اٹھانے والا ایک چھوٹا بچہ ہے اور کیا مجھے اس کو مارنا چاہیے۔ جو اتنا فراخدل ہو کہ بچے سے پوچھے کہ تم کیوں نکلے ہو اور تمہارے مسئلے کیا ہیں، لیکن اس کے برعکس بھارتی فورسز وحشی ہیں۔ یہ ان نوجوان بندوق برداروں کو مارنے کے لیے رہائشی ڈھانچوں کو بمباری سے اڑاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے جو عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت کے لیے نکلتے ہیں ایک دن بعد ہی مار دیے جاتے ہیں۔ مجھے اب ماتم کرنا بھی نہیں آتا ہے۔'
حمیدہ نعیم کے مطابق عام کشمیری اب خاموش ہیں اور ان کا یہی کہنا ہے کہ اب اللہ ہی کچھ کرسکتا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا: 'لیکن میرا ماننا ہے کہ بچوں کو اس وقت اپنی جانیں بچانی چاہییں۔ اس وقت عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہونے کا مطالب ہے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا۔ موجودہ حکمت عملی جان بچانے کی ہونی چاہیے تھی۔ یہ ایک غیر مساوی جنگ ہے۔ ایک طرف ہزاروں بھارتی فورسز اہلکار اور دوسری طرف ایک غیر تربیت یافتہ نوجوان۔'
'لیکن وہ کس کی سنیں گے۔ اب کچھ پاگل لوگ جنگ بدر اور دیگر اسلامی معرکوں کی مثالیں ان کے سامنے رکھتے ہیں لیکن انہیں کون سمجھائے کہ وہ صحابی ہی ایسے تھے اور اس وقت معرکے چھوٹی سطح پر لڑے جاتے تھے۔ کچھ مذہبی لوگ ان نوجوانوں سے جھوٹ بولتے ہیں۔'
ڈاکٹر حمیدہ کے بقول یہاں پانچ اگست 2019 سے ہی ایک وبا پھیلی تھی پھر جب دوسری وبا (کرونا) پھیلی تو حکومت نے اس کو خدا کی طرف سے بھیجے گیے تحفے کے طور پر استعمال کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
'ہمیں مزید کچلا اور دبایا۔ ہمیں تباہ کیا۔ ہمارے پاس جو کچھ بچا ہے اس وبا کو ہم سے وہ سب چھیننے کے موقع کے طور پر استعمال کیا گیا کیونکہ اس دوران وہ قوانین نافذ کیے گیے جن کے تحت کوئی احتجاج نہیں کرسکتا۔'
'میں اس عمر میں بہت مایوس ہوں۔ سب کے منہ پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ بات کرنا بہت بڑا جرم بن چکا ہے۔ ہم نے کانگریس حکومت بھی دیکھی ہے۔ اگرچہ ان کی کشمیر کے حوالے سے پالیسی ایک ہے لیکن پھر بھی اس میں بات کرنے پر اتنی پابندی نہیں تھی۔ آج ان لوگوں نے ہمیں بند کر کے رکھا ہے۔'
وہ مزید کہتی ہیں: 'ان کے تکبر کو چین والوں نے پاش پاش کیا ہے لیکن پھر بھی ان کی بندوق کا رخ ہماری طرف ہی ہے۔ چین کو کوئی جواب نہیں دے سکتے لیکن ہمیں زیر عتاب رکھا ہے۔ ہم ان کے انگوٹھے کے نیچے دبے ہیں اور یہ جیسے چاہتے ہیں ہمیں کچلتے ہیں۔'
کشمیر یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'سکیورٹی فورسز کا ہمارے تئیں ایسا رویہ ہے جیسے ہم غلام ہیں۔ سکیورٹی فورسز کی طرف سے سڑکوں پر روکنا، جامہ تلاشی کر کے ذلیل کرنا، کارڈن اینڈ سرچ آپریشنز کے نام پر گھروں میں گھسنا، تصادم آرائیاں اور نوجوانوں کی گرفتاریاں ایک معمول بن چکا ہے۔ کوئی بات کرتا ہے تو فوراً مقدمے درج کر کے جیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔'
'انسان کتنا برداشت کر پائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں انجینیئروں، ڈاکٹروں، پی ایچ ڈی سکالرز اور مدرسین نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے تب سے زیادہ ہی دبایا جانے لگا ہے۔ میں حالات دیکھ کر خود انتہائی مایوسی کا شکار ہوں۔'
کشمیر پولیس کے سابق سربراہ ڈاکٹر شیش پال وید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ بندوق اٹھانے والے نوجوانوں کو مارنا مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔
'نوجوان لڑکے مر رہے ہیں۔ مارنے اور عسکریت پسند بننے کے اس سلسلے کو روکنے کی ضرورت ہے۔ میرے حساب سے ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیسے ہم بچوں کو عسکریت پسند بننے سے روک سکتے ہیں۔ اس میں ملنے والی کامیابی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ میری تو یہی سوچ ہے۔'
ڈاکٹر وید نے ہلال احمد کی عسکریت پسندوں کی صفوں میں مبینہ شمولیت پر کہا: 'اتنے پڑھے لکھے لڑکے، جس کا کیریئر بہت تابناک ہوسکتا ہے، کا عسکریت پسند بننا بہت بڑی بدقسمتی ہے۔ ایک ان پڑھ اور بے روزگار ہوتا تو الگ بات تھی لیکن ایک پی ایچ ڈی سکالر کو نوکری ملنے کے سو فیصدی امکانات ہیں۔'
یہ پوچھے جانے پر کہ پڑھے لکھے کشمیری نوجوانوں میں عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت کے رجحان کی کیا وجہ ہے تو ان کا کہنا تھا: 'میں جب پولیس سربراہ تھا تو نوجوانوں کو عسکریت پسندی کی طرف راغب کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال ہوتا تھا۔ برہان وانی اور ریاض نائیکو اپنے ذاتی اثر و رسوخ اور رابطوں سے نوجوانوں کو عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل کراتے تھے۔'
'آپ کو یاد ہوگا کہ میں 2017 میں ایسے ایک سو نوجوانوں کو واپس لایا جو عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرچکے تھے۔ اس میں ان کے والدین کا بھی کردار تھا کیونکہ انہوں نے اپنے بچوں سے اپیلیں کی تھیں کہ وہ واپس آئیں۔ بعض کو پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کرنے کے دوران روکا گیا تھا۔'
ہلال چوتھے پی ایچ ڈی سکالر؟
اگر پولیس کے بیان پر اعتبار کیا جائے تو ہلال احمد حالیہ برسوں کے دوران عسکریت پسندی کی راہ اختیار کرنے والے چوتھے پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔
قبل ازیں تین پی ایچ ڈی سکالرز نے عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی تھی جو سبھی سیکورٹی فورسز کے ساتھ مختلف معرکہ آرائیوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔
سال 2016 میں معروف حزب کمانڈر برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے بعد جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ سے تعلق رکھنے والے سبزار صوفی عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرنے والے پہلے پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق سبزار احمد صوفی ولد بشیر احمد صوفی نے اگست 2016 میں لشکر طیبہ نامی عسکری تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی۔
سبزار نے برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے شعبہ نباتات میں پوسٹ گریجویشن کی تھی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی دلی میں داخلہ لینے سے قبل جیواجی یونیورسٹی گوالیار سے ایم فل کیا تھا۔
انہوں نے نیٹ اور جے آر ایف کوالیفائی کرنے کے بعد انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس امتحانات کے لیے بھی تیاریاں شروع کی تھیں۔
سبزار سال 2018 کے ماہ اکتوبر کی 24 تاریخ کو سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں مارے گئے۔
سال 2018 کے ماہ جنوری میں منان وانی نامی پی ایچ ڈی سکالر نے حزب المجاہدین نامی عسکری تنظیم میں شمولیت اختیار کر کے عسکری تنظیموں کے حلقوں میں ہلچل پیدا کی تھی۔ تاہم منان وانی نے جس سال عسکری پسندی کا راستہ اختیار کیا تھا اسی برس کے ماہ اکتوبر میں وہ ایک تصادم میں مارے گیے۔
منان وانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ جیولوجی کے ریسرچ سکالر تھے اور اپنی ذہانت و محنت کی وجہ سے وہاں کافی مقبول تھے۔
سال 2018 کے ماہ اپریل میں کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات میں اسسٹننٹ پروفیسر کی حیثیت سے مامور 32 سالہ پی ایچ اڈی سکالر محمد رفیع بٹ نے حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کی تھی۔
ضلع گاندربل سے تعلق رکھنے والے رفیع بٹ کا بحیثیت عسکریت پسند سفر صرف 36 گھنٹوں تک ہی محدود رہا کیونکہ انہیں بندوق اٹھانے کے بعد دوسرے روز ہی ایک تصادم میں مار دیا گیا تھا۔