تین سعودی خواتین کو گرفتار کیے جانے کے تقریبا ایک سال بعد گذشتہ جمعرات عارضی طور پر جیل سے رہائی دی گئی ہے۔
امریکی خبررساں ادارے ایسوسیٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق انہیں دو لوگوں نے بتایا کہ سابق پروفیسر اور اپنے پوتوں کی دادی عذیذہ الیوسف، لسانیات کی پروفیسر اور چار بچوں کی ماں ایمان النفجان اور ایک تیسری خاتون روقیہ المحراب جمعرات کو سماعت کے بعد ضمانت پر عارضی رہائی پا چکے ہیں۔
سرکاری سعودی پریس ایجنسی نے تین خواتین کی رہائی کی خبر دی ہے لیکن ان کی شناخت نہیں کی ہے۔ ایجنسی کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف مقدمات ابھی چل رہے ہیں۔
اے پی کو ملنے والی معلومات کے مطابق کم از کم ایک خاتون اپنے خاندان کے ساتھ واپس اپنی رہائش گاہ میں موجود ہیں۔
یہ فیصلہ دیگر زیر حراست خواتین کے لیے اہم ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ان تین میں سے دو رہا شدہ خواتین عزیزہ اور ایمان پر سرکاری میڈیا میں گذشتہ برس مئی کے دوران گرفتاری کے بعد غدار اور ملک دشمن ہونے کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب سعودی شہزادے محمد بن سلمان پر بین الاقوامی سطی پر صحافی جمال خاشقجی کے استمبول میں قتل کے واقعے کے بعد شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ اس قتل کے الزام میں گیارہ افراد پر سعودی عرب میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
ان خواتین کارکنوں کی گرفتاری پر بھی امریکی کانگرس کے اراکین، برطانیوی پارلیمان اور دیگر مغربی ممالک میں کڑی تنقید کی گئی۔
نو امریکی سینیٹرز نے شاہ سلمان سے گذشتہ ہفتے ایک خط میں مطالبہ کیا کہ وہ سیاسی قیدیوں کو رہا کریں تاکہ ’تاخیر سے لیکن حقوق انسانی‘ کے لیے اپنی سنجیدگی ظاہر کرسکیں۔
کم از کم دس خواتین کارکن قید میں ہیں جن میں لوجیان الحتلل، حاتون ال فاسی، ثمر بداوی اور نسیم الصادہ شامل ہیں۔ ان کے خلاف مقدمات کی مزید سماعت آئندہ ہفتے متوقع ہے۔
ان میں سے اکثر خواتین بدھ کو ریاض کی ایک عدالت میں پیش ہوئیں تاکہ اپنی دفاعی موقف پیش کرسکیں۔ ان مقدمات کی معلومات رکھنے والے کئی افراد نے بتایا کہ ان خواتین پر ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے اور غیرملکی رپورٹروں، سفارت کاروں اور حقوق انسانی کے کارکنوں کے ساتھ رابطوں کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔
اپنے شوہروں، والدین اور بچوں کی موجودگی میں ان خواتین نے تین ججوں کے سامنے نقاب پوش تفتیش کاروں کی جانب سے جنسی اور جسمانی تشدد کے بارے میں بتایا۔
حکومت نے بدسلوکی کے ان الزامات کو غلط قرار دے کر ان کی تردید کی ہے۔
اپنی گرفتاری سے قبل کئی عورتوں نے دعوی کیا تھا کہ انہیں شہزادہ محمد کے ایک ساتھی کی جانب سے کالیں موصول ہوئیں جن میں انہیں غیرملکی میڈیا سے بات کرنے سے منع کیا گیا تھا۔
کئی کو اس وقت حیرت ہوئی جب انہیں ملک سے باہر جانے نہیں دیا گیا۔ اپنی سکیورٹی کے خوف سے ان خواتین نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگایا بند کر دیا۔
گذشتہ برس مئی میں ان کی گرفتاری کے ایک ماہ بعد سعودی عرب نے عورتوں پر گاڑی چلانے پر پابندی ختم کر دی تھی۔
انسانی حقوق کی دس کارکن خواتین پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق تشدد کیا گیا جس میں انہیں تحقیقات کاروں کے سامنے بوسہ لینے پر مجبور کرنا بھی شامل ہے۔
بدھ کو دوسری سماعت میں تقریبا ایک درجن عورتوں نے جج کو بتایا کہ انہیں چہرے چھپائے ہوئے مردوں نے کمر پر چھڑیوں سے مارا، بجلی کے جھٹکے دیئے اور واٹر بورڈنگ بھی کی گئی۔
غیرملکی میڈیا کے نمائندوں، سفارت کاروں اور آزاد مبصرین کو یہ عدالتی کارروائیاں دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔