سندھ کی ہندو بھیل برادری مکانات کی مسماری پر سراپا احتجاج

مظاہرین نے الزام لگایا ہے کہ پیپلز پارٹی کو ووٹ نہ دینے پر ان کے گھر مسمار کرکے مقدمات قائم کیے گئے، تاہم صوبائی حکمران جماعت نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں سودیشی سندھی ہندوؤں کی بھیل ذات کی خواتین سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنے مکانات کی مسماری کے خلاف شدید گرمی میں کئی کلومیٹر پیدل چل کر مٹھی شہر میں دھرنا دیا، جسے بعدازاں انصاف کی یقین دہانی پر ختم کردیا گیا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ کئی خواتین اور عمر رسیدہ افراد گرمی کی شدت سے بے ہوش ہوگئے، جنہیں پانی کے چھینٹے مار کر ہوش میں لایا گیا۔

احتجاج کی سربراہی کرنے والے مٹھی کے وکیل اور بھیل انٹیلیکچوئل فورم کے رہنما لجپت رائے سورانی بھیل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بذریعہ ٹیلی فون گفتگو میں بتایا کہ تھرپارکر کے ضلعی ہیڈکوارٹر شہر مٹھی سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع صدیوں پرانے گاؤں مالنہور خانجی میں بھیلوں کے ساتھ ٹھاکر رہتے ہیں۔ چند سال پہلے بھیل برادری نے گاؤں میں کچھ نئے گھر بنائے تھے، تاہم ٹھاکروں نے ضلعی انتظامیہ کو ایک درخواست دے کر ان گھروں کو چند دن پہلے مسمار کروا دیا، جس کے خلاف احتجاج کیا گیا ہے۔

لجپت رائے سورانی نے الزام عائد کیا کہ: 'گاؤں مالنہور خانجی کے رہائشی ٹھاکر نرسنگھ، جو کہ ڈپٹی کمشنر تھرپارکر کے آفس میں کلرک ہیں، نے ضلعی انتظامیہ میں اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے ایک سادہ درخواست پر بھیلوں کے گھروں کو مسمار کروا دیا۔'

تاہم ٹھاکر نرسنگھ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'گاؤں مالنہور خانجی میں بھیل اور ٹھاکر ساتھ ساتھ رہتے ہیں، بھیلوں کی اکثریت ہے جبکہ ہم ٹھاکروں کے چند ہی گھر ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بھیلوں نے گاؤں کے ایک ٹیلے پر چند گھر بنائے، جس پر ہم نے انہیں منع کیا کہ اس جگہ پر گھروں کی تعمیر سے آنے جانے کے راستے بند ہوجائیں گے مگر وہ نہیں مانے تو میں نے ضلعی انتظامیہ کو درخواست دی کہ یہ گھر غیر قانونی بنے ہوئے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے پوری تحقیق کرنے کے بعد ان گھروں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسمار کیا۔'

واضح رہے کہ صحرائے تھر کے ضلع تھرپارکر میں ضلع عمرکوٹ کی طرح بڑی تعداد میں ہندو آباد ہیں، جن میں بھیل، مینگھواڑ اور کولہیوں کی اکثریت ہے جبکہ ٹھاکر ہندوؤں کی اوچی ذاتوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

اس ضلع کی 17 لاکھ آبادی میں سے تقریباً آدھی آبادی ہندوؤں کی ہے اور ان میں بھی نچلی ذات کے ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ بقول لجپت سورانی تھرپارکر میں کل 23 سو چھوٹے بڑے گاؤں ہیں جن میں آٹھ سو گاؤں صرف بھیل برادری کے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 لجپت سورانی نے بتایا: 'یہ صرف ان گھروں کی مسماری کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ہماری برادری کے خلاف کئی جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ ہمیں پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ نہ دینے پر انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گذشتہ الیکشن میں بھیل برادری کی طرف سے میں اور ایک ساتھی بھیمراج آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے تھے۔ تھر میں بھیل واحد ذات ہے جو پی پی پی کی مخالفت کرتی ہے اس لیے اب گھروں کو بھی انتقامی کارروائی کرتے ہوئے مسمار کیا گیا ہے اور احتجاج کرنے پر خواتین کو مقدموں میں نامزد کیا گیا۔'

ان کا مزید کہنا تھا: 'انتظامیہ کی جانب سے انصاف دلانے کی یقین دہانی کرانے پر ہم نے احتجاج ختم کیا ہے، مگر ابھی بھی احتجاجی کیمپ لگا ہوا ہے اور اگر ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا تو ہم نہ صرف مٹھی بلکہ سندھ کے دیگر بڑے شہروں بشمول حیدرآباد اور کراچی میں بڑے پیمانے پر احتجاج کریں گے۔'

تاہم پیپلز پارٹی رہنما اور تھرپارکر سے منتخب رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر مہیش ملانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ 'سیاسی طور پر انتقامی کارروائی نہیں کی جارہی، یہ نئے گھر بنے تھے جو ضلعی انتظامیہ نے پوری چھان بین کے بعد مسمار کیے ہیں۔ اس سے پہلے ہم نے دونوں فریقین کو آپس میں بیٹھا کر بھی معاملہ حل کرنے کی کوشش کی مگر وہ نہیں مانے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان