بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ادیب منیر احمد بادینی جو بلوچی زبان میں ناول نگاری کرتے ہیں جنہیں 'کمال فن' ایوارڈ سے نوازا گیا ہے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بلوچی میں ناول نگاری کے لیے راستے کا تعین کردیا ہے۔
منیر احمد بادینی کا ماننا ہے کہ اب نوجوان ان کی تقلید کررہےہیں۔ وہ شاعری کے علاوہ بلوچی زبان کی نثرمیں بھی فروغ دیکھ رہے ہیں۔
منیر بادینی کے بقول ،میں نے دوسری زبانوں پر عبور حاصل ہونے کے باوجود بلوچی کو ترجیح دی کیونکہ میرے نزدیک اصل ادب اپنے مادری زبان میں ہی تخلیق کیا جاسکتا ہے ۔
نوشکی کے صحرا سے کوئٹہ اور لاہور میں تعلیم حاصل کرنے والے لکھاری بننے کے خواہشمند منیر بادینی بیورو کریٹ بنے لیکن اب فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔
منیر بادینی نے بتایا کہ ادب کا شوق بچپن سے ہی تھا اور بیورو کریٹ بننے کے بعد بھی لکھائی نہیں چھوڑی اور ان کا زیادہ کام سروس کے دوران ہی تخلیق ہوا ہے ۔
منیر بادینی نے اب تک 130 کے قریب بلوچی زبان میں ناول لکھے ہیں جن میں 80 کے قریب چھپ چکے ہیں ان کے ایک ناول کا انگریزی اور دوسرے کا اردو میں ترجمہ بھی ہورہاہے۔
منیر بادینی کے مطابق ،لکھنا میرا جنون ہے اور پندرہ بیس سالوں سےمیں روزانہ ہی پانچ سے دس صفحے ضرور لکھتا ہوں ۔
منیر بادینی سمجھتے ہیں جس چیز کا کسی کو شوق ہو پھر اس کا کوئی مول نہیں اور نہ ہی کوئی چیز اس کے کام میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
مکمل انٹرویو یہاں دیکھیے:
بیورو کریسی میں رہتے ہوئے کسی پر بھی بہت سے پابندیاں ہوتی ہیں اور اس دوران وقت نکالنا مشکل کام ہے لیکن منیر بادینی سمجھتےہیں کہ بیورو کریسی نے انہیں بہت کچھ دیا ہے۔
منیر بادینی کے بقول ،ملازمت کےدوران مجھے بلوچستان اور پاکستان کو قریب سے دیکھنے کو ملا اور میں نے لوگوں کو دیکھا اور سمجھا جس سے مجھے تخلیق کرنے میں آسانی ہورہی ہے ۔
پاکستان کا سب سے بڑا ایوارڈ 'کمال فن' کو مانا جاتا ہے اور یہی اس بار بلوچستان کے حصے میں آیا اس سے قبل یہ ایوارڈ نامور دانشور پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی کو ملا ہے ۔
یہ ایوارڈ ہر سال کسی بھی پاکستانی اہل قلم کو ان کی زندگی بھر کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا جاتا ہے اس کا اجرا اکادمی ادبیات پاکستا ن نے کیا تھا ۔
منیر بادینی بتاتے ہیں کہ وہ مغربی مفکرین سے بہت متاثر ہیں اور ان میں سے تمام بڑے ناول نگار ان کےزیر مطالعہ رہےہیں اور ان کی تحریروں میں ان کےاثرات دیکھے جاسکتے ہیں ۔
منیر بادینی کے مطابق ،ہمارا ادب پانچ سو ہزار سال سے شاعری کے زیر اثر رہا ہے اور زیادہ تخلیقات بھی اسی صنف میں ہوتی رہی ہیں لیکن میں اس رجحان کو تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔
منیر بادینی سمجھتے ہیں ناول نگاری پر زیادہ توجہ دینے کی وجہ یہی بھی ہے کہ بلوچی زبان میں نثر پر بہت ہی کم کام ہوا ہے اور وہ واحد ناول نگار ہیں جن کے ناولز کی تعداد سو سے زائد ہے ۔
بادینی کے بقول میں نوجوانوں سے یہ کہتا ہوں کہ وہ نثر پر توجہ دیں کیونکہ بلوچی زبان کو اسی صنف میں ہی آگے لے جایا جاسکتا ہے کیونکہ شاعری بہت ہوگئی اب نثرکی صدی ہے ۔
کمال فن ایوارڈ حاصل کرنے والے ادیب کو ادارے کی طرف سے دس لاکھ روپے کی رقم بھی دی جاتی ہے۔
منیر بادینی کے بقول ،بیورو کریسی میں رہتے ہوئے اظہار رائے کی اتنی آزادی نہیں ہوتی لیکن وہ چونکہ بلوچی زبان میں لکھتے تھے اس لیے وہ بیورو کریسی اور سسٹم پر بھی تنقید کرتے رہے لیکن کسی کی نظر میں نہیں آئے۔
منیر بادینی نے بتایا کہ ان کہانیوں کا مواد زیادہ تر بلوچی زبان کی قدیم داستانیں ہیں جو ہر کوئی اپنی دادی اور والدہ سے سنتا رہا ہے اور وہ انہی کی بنیاد پر جدید تخلیقات کررہے ہیں۔
منیر بادینی نے بتایا کہ پہلے میں افسانے لکھتاتھا لیکن سال 2000 میں میرا راستہ تبدیل ہوگیا اور میں ناول کی طرف آگیا جو ابھی تک جاری ہے ۔
بادینی کا ماننا ہے کہ اصل ادب کسی بھی ادیب کی سولو فلائٹ ہوتا ہے اور وہ اکیلے ہی اس کو کرسکتا ہے اجتماعی طور پر کوئی ادب تخلیق نہیں ہوسکتا ہے ۔
منیر بادینی کے بقول ،آج تک دنیا میں کوئی ایسا ادیب نہیں ہے جو اکیڈمی سے نکلا ہو اس لیے یہ ہر کوئی خود ہی کرتا ہے ۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
منیر بادینی کے مطابق ،کہانی کا پلاٹ موٹر کے انجن کی طرح اگر وہ مضبوط ہے تو باقی چیزوں میں کمی کے باوجود یہ آگے بڑھ سکتی ہے ۔
متعدد ایوارڈ حاصل کرنے بعد کمال فن ایوارڈ ملنے پر منیر بادینی خوشی کا اظہار کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں یہ پہلے ملنا چاہیے تھا کیونکہ ان کا ادب میں کام دوسروں سے بہت زیادہ ہے ۔
منیر احمد بادینی کے بقول ،ایوارڈ کسی بھی ادیب کے لیے پہچان کا باعث ہے جو لوگ اسے دیتے ہیں لیکن اگر کسی کو ایوارڈ نہ بھی ملے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔
منیر بادینی کے مطابق ، اردو کے مقابلےمیں مقامی زبانوں ،پشتو ،بلوچی ،سندھی زبان میں زیادہ کام ہوا ہے، کیونکہ فیڈریشن کے یونٹس میں آگاہی پیدا ہوئی ہے اور یہ اچھاادب تخلیق کررہے ہیں۔
منیر بادینی ترقی پسند ادب کے حوالےسے بھی مختلف رائے رکھتے ہیں اورسمجھتےہیں کہ ترقی پسندی کو بھی تو ری ڈیفائن کرنا ہے کیونکہ ترقی پسندی کا جو ساکت و جامد تصور تھا وہ کافی تبدیل ہوچکا ہے ۔
منیربادینی کا ماننا ہےکہ انہوں نے بہت کچھ پاکستانی ادیبوں سے ہی سیکھا ہے جن میں کراچی،لاہور اور اسلام آباد کے ادیب شامل ہیں جو بلوچ بھی نہیں ہیں ۔