مانتا ہوں کہ ابھی نندن اور کلبھوشن جادیو دونوں بھارت کے بیٹے ہیں اور اپنے وطن کے لیے یہ سب کچھ کر بیٹھے تھے۔ ماننا پڑے گا کہ وہ دونوں پاکستانی حدود میں غیرقانونی اور خطرناک جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے داخل ہوئے جبکہ ان کے برعکس ایک پاکستانی فوجی سپاہی اپنی ہی سرزمین پر اپنے ہی وطن کا جائز اور قانونی دفاع کرتا ہوا بھارتی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا۔
اب نصف صدی ہونے کو آئی اور کسی نے مڑ کر پوچھا بھی نہیں کہ وہ زندہ بھی ہے یا دشمن ملک کی کسی جیل میں اپنوں سے دوری، بےگناہی اور بےوطنی کے عذاب جھیلتے جھیلتے اپنی آزادی کے خوابوں اور گھر لوٹنے کی حسرتوں سمیت مر گیا ہے۔ یہ ایک فوجی سپاہی بنات خان کی دل سوز کہانی ہے۔
بنات خان کا تعلق ضلع صوابی کے نواحی گاؤں سے تھا۔ چھ فٹ لمبا قد اور اسی طرح سرخ و سفید رنگت جو اس علاقے کے لوگوں کا عمومی طور پر خاصا ہے۔
ساٹھ کے عشرے میں جب وہ 22 سال کا ایک خوبرو نوجوان تھا وہ پاک فوج میں بحیثیت سپاہی بھرتی ہوا۔ اب گاہے بگاہے وہ چھٹی پر اپنے گاؤں آتا اور کبڈی کے میدان میں اترتا تو تماشائی دنگ رہ جاتے کیونکہ ایسی جوانی اور ایسی طاقت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
اب اسے فوج میں ملازمت کرتے ہوئے تقریباً چھ سال ہو گئے تھے۔ اسی دوران اس کے خاندان والوں نے اس کی منگنی بھی کر دی اور ارادہ تھا کہ جوں ہی اسے چھٹی مل جائے تو اس کی شادی بھی کروا دیں لیکن تب کسے معلوم تھا کہ تھوڑا سا آگے عمر بھر کی بدنصیبی اسے لپٹ جائے گی۔
1970 کے آس پاس فوج کی تعداد میں کمی کی جانے لگی تو بنات خان کو بھی پنشن اور مراعات سمیت فارغ کر دیا گیا۔ تب اس کی عمر 27 یا 28 سال تھی۔ وہ گاؤں پہنچا تو اس کی شادی کی تیاریاں کی جانے لگیں کہ اس دوران پاک بھارت جنگ چھڑ گئی اور اسے فوجی روایت کے مطابق پھر سے محاذ جنگ پر بلا لیا گیا۔
دوسرے دن صبح سویرے اس کی بوڑھی والدہ نے اس کا آخری بوسہ لیا اور وہ چل پڑا۔ پھر وہ دن اور آج کا دن بنات خان لوٹ کر نہیں آیا۔ پاک بھارت جنگ اختتام کو پہنچی اور 90 ہزار پاکستانی بھارتی جیلوں میں گئے تو بنات خان بھی انہی میں سے ایک تھا۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی حیرت انگیز دانائی بروئے کار لاتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ شملہ معاہدہ کیا اور یوں 90 ہزار قیدیوں کی رہائی بتدریج ہونے لگی۔ اب بنات خان کی بوڑھی ماں کے کان ریڈیو اور آنکھیں دروازے پر رہنے لگیں لیکن نہ انہوں نے اس کا نام سنا نہ آنکھوں نے اسے پھر دیکھا۔
(سنا ہے کچھ عرصہ پہلے وہ دہلی کے نواح میں کسی جیل میں تھا)۔ ایک طویل اذیت سہتے اور اپنے گم شدہ بیٹے کی راہ تکتے تکتے 12 سال بیت گئے اور یہ بدنصیب ماں اپنے آنسوؤں اور ناتمام حسرتوں سمیت قبر میں اتر گئی۔
بنات خان کا چھوٹا بھائی حیات خان اب بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑا ہے لیکن اس کی ہمت کی جوانی اب بھی قائم ہے۔ وہ روز صبح کاغذات کے پلندے جس میں بنات خان کی تصویر سرکاری کاغذات مختلف درخواستیں اور اخبارات کے تراشے وغیرہ شامل ہیں اٹھائے گھر سے نکلتا ہے اور ہر اس دروازے پر دستک دیتا رہتا ہے جہاں اسے امید کی ہلکی سی کرن بھی دکھائی دے۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سے لے کر مختلف ٹی وی چینلز اور سیاسی رہنماؤں سے اخبارات کے دفاتر تک کوئی در اس نے چھوڑا نہیں لیکن امید اور بےحسی کی اس جنگ میں پلڑا ابھی تک بےحسی اور بدنصیبی کا ہی بھاری ہے۔
لیکن کیا حرج ہے کہ اس مجموعی منظرنامے کے ایک اور رخ میں بھی جھانک آئیں۔
بھارتی پائلٹ ابھی نندن نے بموں سے لیس جہاز اڑایا اور غیرقانونی اور غیراخلاقی طریقے سے پاکستانی حدود میں داخل ہوا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کسی پرسکون اور خوابیدہ پاکستانی بستی کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیتا پاکستان کے ایک نوجوان پائلٹ نے بروقت وار کیا اور اس کے جہاز کو گرانے میں کامیاب ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ابھی نندن زندہ بچا جسے فوری طور پر فوجی سپاہیوں اور مقامی دیہاتیوں نے اشتعال انگیز فضا کے باوجود تحویل میں لیا لیکن اس واقعے کے چند گھنٹے بعد وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر خیر اور انسانیت کا ایک پیغام دیتے ہوئے دشمن ملک کے پائلٹ کی رہائی کا اعلان کیا اور وہ اپنے ملک بھی لوٹ گیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ بھارتی جاسوس کلبھوشن جادیو غیرقانونی طریقے سے ایران کے راستے جاسوسی جیسے خطرناک جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے بلوچستان میں داخل ہوا اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ اسے مکمل قانونی مدد بھی فراہم کی جا رہی ہے حتیٰ کہ اپنے خاندان اور قونصلر تک رسائی سے بھی محروم نہیں رکھا گیا (بلکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کلبھوشن کو ایک بڑا ریلیف بھی دیا جا سکتا ہے)۔
لیکن اپنی سرزمین (سابق مشرقی پاکستان) میں اپنی ہی زمین کا دفاع کرتے ہوئے بنات خان نامی پاکستانی سپاہی اپنے بنیادی اور انسانی حقوق سے محروم کیوں رہا۔ جینیوا کنونشن کے چارٹر کے حوالے سے بھی بنات خان کو یہ حقوق حاصل ہیں لیکن اس سلسلے میں کسی بھلائی کی توقع ہم نریندر مودی سے نہیں کر سکتے لیکن پورا بھارت ایسا ہرگز نہیں۔
وہاں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو انسانیت اور امن و آشتی کا علم اٹھائے ہوئے ہیں سو وہ بھی میری امیدوں کے مراکز میں سے ایک ہیں لیکن ساتھ ساتھ عمران خان سے بھی گزارش ہے کہ بھارتی پائلٹ کی رہائی سے آپ کا جو مثبت امیج دنیا کے سامنے آ گیا تھا تو کیوں نہ بنات خان کی تلاش میں اسے مزید آگے بڑھایا جائے بلکہ وزیر اعظم یہ ٹاسک دہلی میں متعین پاکستانی سفیر کو ہی سونپ دیں تو نتائج جلد سامنے آسکتے ہیں۔
ساتھ میں جنرل قمر جاوید باجوہ سے گزارش ہے کہ جس لشکر کے آپ سپہ سالار ہیں اس لشکر کا ایک دلیر جوان اور آپ کا ایک سپاہی اپنی مٹی کے لیے لڑتا ہوا دشمنوں کی بستی میں کہیں گم ہو چکا ہے۔ آپ کا منصب اس بات کا متقاضی ہے کہ اپنے گم شدہ سپاہی کی خبر لی جائے اور ہاں گم شدہ اور بے آسرا قیدیوں کے لیے لڑتے ہوئے انصار برنی صاحب آپ سے بھی مخاطب ہوں اور ان تمام دوستوں سے بھی جو خیر کے پرچار اور انسانیت کی خاطر میدان میں ہیں خواہ وہ لکیر کے اس پار ہیں یا اس پار۔
کیونکہ میں کسی میدان حرب کے گرجتے ہوئے مورچے سے نہیں بلکہ انسان دوستی اور ہمدردی کے سائبان سے اپنی صدا بلند کر رہا ہوں۔ میرے ہاتھ میں تو آگ اگلتی ہوئی کوئی بندوق بھی نہیں بلکہ خیر اور انسان دوستی کی روشنی بانٹتا ہوا ایک قلم ہی ہے۔
فقط ایک قلم ہے۔