حجرہ پختون معاشرے کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ جہاں غمی وخوشی کے تمام معاملات کے ساتھ ساتھ گاؤں کے مسائل اور جرگوں کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔
پختون معاشرے میں حجرے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب بھی کسی کو کم علمی کا طعنہ ملتا ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے کبھی حجرے میں وقت نہیں گزارا۔
حجروں کی اسی اہمیت اور ضرورت کے پیش نظر بعض صاحب حیثیت پختونوں نے وسیع و عریض اور شاندار حجرے تعمیر کروائے جو کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی نہ صرف بہترین حالت میں ہیں بلکہ جدید عمارتوں کے برعکس کافی دلکش اور پروقار بھی ہیں۔
ان ہی حجروں میں ایک حجرہ نواب سر صاحبزادہ عبدالقیوم خان کا بھی ہے جو نہ صرف اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ایک سو سال سے زائد پرانا اور خوبصورت حجرہ ہے، بلکہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے مالک بانی اسلامیہ کالج تھے، جن کو اس صوبے کے عوام اپنا محسن اعظم پکارتے ہیں۔
صاحبزادہ عبدالقیوم کا تعلق صوابی کے گاؤں ٹوپی کے ایک نامور خاندان سے ہے۔ قوم کی نسبت سے وہ ایک لودھی پشتون تھے۔ ان کے والد کا نام عبدالرؤف تھا جب کہ ان کی والدہ گاؤں کوٹھا کے ایک عالم فاضل شخصیت حضرت صاحب کی بیٹی تھیں۔
صاحبزادہ عبدالقیوم کے نواسے بریگیڈئیر ریٹائرڈ محمد ایاز خان اس حجرے کی تعمیر کا سال 1890 بتاتے ہیں جب کہ حجرے سے ملحقہ مسجد کی تعمیر 1930 میں ہوئی ہے۔ جہاں صاحبزادہ عبدالقیوم اپنے خاندان کے دیگر لوگوں کے ساتھ دفن ہیں۔
ایاز خان انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’نواب صاحب نے مرنے سے قبل اپنے آبائی گھر میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی، کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اسلامیہ کالج میں دفن ہونے کے بعد ان کی پر خلوص کاوشوں کو شک کی نظر سے دیکھا جائے۔‘
انہوں نے حجرے سے متعلق بتایا کہ وہ اور ان کے بہن بھائی بھی اسی گھر میں پیدا ہوئے اور اسی حجرے میں بچپن گزارا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہ حجرہ گاؤں سے الگ تھلگ ایک چوٹی پر بنایا گیا تھا۔ ساتھ ہی اس میں مسجد، باغ، مہمان خانہ، لنگر خانہ، رہائش، اصطبل اور گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے بہت بڑی جگہ ہے۔ حجرے کی ایک جانب بابا جی کا گھر تھا اور اس کے ساتھ تقریباً 60 گھروں میں مزارعین اور دیگر کام کرنے والوں کے لیے گھر بنے ہوئے ہیں۔‘
حجرے میں تشریف لانے والی معروف شخصیات
صاحبزادہ عبدالقیوم کے نواسے ایاز خان کے مطابق چوٹی پر واقع یہ قدیم حجرہ ایک شاہی مہمان خانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ جہاں کئی سیاسی و غیر سیاسی شخصیات کا تانتا بندھا رہتا تھا۔
’نواب صاحب جب چھٹیوں پر تشریف لاتے تھے تو علاقے کے لوگ اور دور دراز سے خان خوانین اور پیر فقیر سب ان کے پاس آتے تھے۔ نواب ہوتی، نواب امب، مہتر چترال، والی سوات، سر جارج روس کیپل اور سراولف کیرو اکثر یہاں تشریف لایا کرتے تھے۔‘
ایاز خان نے مزید بتایا کہ اولف کیرو نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’دی پٹھانز‘ کے کئی صفحات اسی حجرے میں قیام کے دوران لکھے۔
حجرے کی موجودہ حالت
اس حجرے کو حال ہی میں ایک سنہرے رنگ اور سفید پینٹ کیا گیا ہے ۔ جس کی وجہ ان کے پرپوتے بلال خان نے یہ بتائی کہ حجرے کی پرانی دیواریں ایک خاص سیمنٹ اور اینٹوں سے بنی ہوئی تھیں جو رفتہ رفتہ خستہ حالی کی طرف جا رہی تھی۔
’دیواروں اور عمارت کو بچانے کے لیے ہم نے ایک آرکیٹیکٹ کی مدد حاصل کی۔ جنہوں نے اس پروجیکٹ کو موجودہ حالت میں تبدیل کر دیا ہے۔ نیا رنگ وروغن اگرچہ پرانی عمارت کی خوبصورتی کو ماند کر رہا ہے لیکن سوائے اس کے کوئی اور حل بھی نہیں تھا۔‘
اس حجرے میں اگرچہ پرانے وقتوں کی طرح وہ رنگ و رونق اور ہجوم نہیں رہا لیکن اس کی مسجد آج بھی اسی طرح آباد ہے۔ جہاں بچے اور بڑے روزانہ نماز کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔
ہر سال اسلامیہ کالج کے طالب علم بھی اپنے اساتذہ کے ہمراہ صاحبزادہ عبدالقیوم خان کے مزار پر حاضری دیتے ہیں اور ان کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں۔