پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر آئے روز فائرنگ سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے ہر انسان خوف میں مبتلا ہے کہ کب کوئی مارٹر کا گولا آئے گا اور آپ یا آپ کے خاندان کو ختم کر دے گا۔
لائن آف کنٹرول پر بسنے والے لوگ اس بات کا بھی شکوہ کر رہے ہیں کہ پاکستان اور ریاست کی طرف سے پناہ گاہوں کے لیے وافر فنڈ دیے گے لیکن ابھی تک کسی بھی گاؤں میں پناہ گائیں نہیں بن سکی ہیں لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کس طرح ہمیں دشمن کی فائرنگ کے سامنے بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ زخم ہرا رکھنے کے لیے لوگوں کو پناہ گاہیں نہیں دی جا رہی ہیں؟ سول لوگ مریں گے تو عالمی سطح پر اس کو کیش کیا جائے گا؟
نیلم اس وقت 200 سے زیادہ دیہات پر مشتمل ضلع ہے۔ اور نیلم میں کوئی ایک دیہات بھی انڈین آرمی کی فائرنگ سے محفوظ نہیں ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک کچھ علاقے محفوظ سمجھے جاتے تھے لیکن اب کی بار ان علاقوں میں بھی دشمن کی مارٹر کے گولے آئے ہیں اور کافی حد تک جانی و مالی نقصان بھی کیا ہے۔
ضلع نیلم سے تعلق رکھنے والی طالبہ صائمہ خورشید کہتی ہیں کہ احتیاطی تدابیر اختیار کر کے ہم کورونا سے تو بچ جائیں گے لیکن انڈین آرمی کی فائرنگ سے کیسے بچیں گے؟
صائمہ خورشید کا کہنا ہے کہ 2004 میں میرے والد ہارٹ اٹیک سے فوت ہوئے تو ماں نے ہماری پرورش شروع کی۔ پھر 2005 کا زلزلہ ہوا تو ہمارا گھر گر گیا۔ ایک دیوار مجھ پہ گری جس کی وجہ سے میری ایک ٹانگ کٹ گی۔ مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا اور یہاں گاؤں میں سکول بہت دور تھے لہذا ہمیں مظفرآباد کرائے کے گھر میں شفٹ ہونا پڑا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ابھی میں یونیورسٹی سے بی ایس کر رہی ہوں۔ کورونا کی وجہ سے یونیورسٹی میں چھٹیاں ہوئی تو ہم لوگ واپس اپنے گاؤں آ گے لیکن یہاں پر انڈین آرمی کی طرف سے آئے روز فائرنگ ہوتی ہے، پناہ گاہیں نہیں ہیں، اگر ہیں بھی تو بہت دور ہیں، میری ایک ٹانگ مصنوعی ہے اس لیے میں بھاگ نہیں سکتی اور نہ ہی اتنا دور پناہ گاہوں میں جا سکتی ہوں۔
کورونا وائرس آنے کے بعد پوری دنیا میں جنگیں ختم ہو گئی ہیں لیکن انڈین آرمی نے فائرنگ بند نہیں کی۔
صائمہ خورشید نے عالمی دنیا سے درخواست کی کہ انڈین آرمی کو نہتے مظلوم کشمیریوں پر ظلم کرنے سے روکا جائے۔ دنیا میں تمام مسائل کو ٹیبل ٹاک کے ذریعے حل کیا جا رہا ہے لہذا کشمیر کے مسئلے کو بھی بات جیت سے حل کرنے کی کوشش کی جائے اور عالمی برادری اس میں اپنا کردار ادا کرے۔