فیصل قریشی پاکستان کے ان چند نام ور فنکاروں میں ہیں جنہوں نے صرف اداکاری پر ہی تکیہ کیے نہیں رکھا بلکہ میزبانی )جس میں مارننگ شو، گیم شو بھی شامل ہیں( کے ساتھ ہی ساتھ فلم اور ڈرامہ پروڈکشن میں بھی ہاتھ ڈالا۔
فیصل قریشی کئی اہم معاملات میں اپنی رائے دینے سے نہیں ہچکچاتے، وہ ہمیشہ کھل کر اپنی رائے دیتے ہیں چاہے ترکش اداکاروں کے پاکستان میں کام کرنے کا معاملہ ہو یا پاکستان اور بھارت میں ایک دوسرے کے اداکاروں کا کام کرنا۔
انڈیپینڈنٹ اردو نے فیصل قریشی سے ان کے گھر جاکر ملاقات کی اور پہلا سوال یہی پوچھا کہ اس وقت پاکستانی ٹیلیویژن ایک مشکل وقت سے گزر رہا ہے، خاص کر ارطغرل کے بعد، آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟
فیصل قریشی نے اس بارے میں کہا کہ پاکستانی ڈراموں کا ترکی سے کوئی موازنہ نہیں کیونکہ وہاں کہ بہت سے ڈراموں کو تو حکومت پیسے دیتی ہے اور دیگر ڈراموں کا بجٹ بھی پاکستان سے تقریباً دوگنا ہوتا ہے۔
تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں ڈرامے بھیڑچال کا شکار ہیں مگر انہوں نے اور کچھ دوسرے ہدایتکاروں نے عام ڈگر سے ہٹ کر بھی ڈرامے پیش کیے ہیں۔
پاکستانی ڈراموں کے یکسانیت کا شکار ہونے پر ان کا کہنا تھا کہ ڈرامے میں ڈراما ہونا بہت اہم ہے مگر بہت سے ڈرامے مختلف موضوعات پر بھی بنائے گئے ہیں البتہ تاریخی ڈرامے بنانے میں پاکستان بہت پیچھے ہے کیونکہ اس کے لیے حکومت کا بہت سا تعاون اور اجازت نامے درکار ہوتے ہیں۔ انہوں نے بہت سے ڈراموں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ روایت سے ہٹ کر تھے اور وہ کامیاب بھی ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ 'ارطغرل' تو پاکستان میں پہلے بھی دو مرتبہ چل چکا ہے مگر اس وقت اسے کسی نے نہیں دیکھا تھا اب کیونکہ عمران خان نے اس کی بات کی اس لیے لوگوں نے دیکھ لیا۔
اپنے مارننگ شو کے مالی مسائل کی وجہ سے بند ہونے پر ان کا کہنا تھا کہ وہ دوسرے درجے کا چینل تھا اور میڈیا کے حالات سب کے سامنے ہیں تو ایسا تو ہوجاتا ہے۔
ایک دوسرے چینل پر گیم شو کرنے پر انہوں نے بےتکلف انداز میں کہا کہ وہ اس کا مزہ تو لے رہے ہیں مگر ’سیدھی سی بات ہے کہ پیسے کما رہا ہوں‘۔
2018 میں فیصل قریشی نے ’بابا جانی‘ کے نام سے ایک ڈرامہ پروڈیوس کیا تھا ، اس کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ پروڈکشن بہت مشکل چیز ہے ، بہت سے لوگ پریشان کرتے ہیں ، ’میں تو بیمار پڑگیا تھا اور پھر رہی سہی کسر جب پیسے نہیں آتے تو بندہ کیا کرے‘۔
2019 میں فیصل قریشی نے اپنی فلم ’سوری‘ بنانی شروع کی تھی، تاہم وہ اب تک ادھوری ہے، اس ضمن میں ان کا کہنا تھا کہ کچھ مسائل تھے جس کی وجہ سے کچھ تعطل آیا اور اس کے بعد کرونا کی وبا نے سب کچھ روک دیا، تاہم اب ارادہ ہے کہ اس سال کے آخر میں اس کی عکس بندی دوبارہ شروع کی جائے۔ لیکن انہوں نے سوری کے اداکاروں کے بارے میں ابھی مزید کچھ بتانے سے اعتراض کیا۔
یہ بات شاید کم افراد جانتے ہوں کہ فیصل قریشی نے ہالی وڈ کے اداکار فرحان طاہر کے ساتھ ایک انگریزی فیچر فلم ’دا ونڈو‘ میں بھی کام کیا ہے جس کی عکاسی ہوچکی ہے، اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ ان کا تقریباً 12 سے 15 منٹ کا کردار ہے اور انہوں فرحان طاہر کے ساتھ کام کرکے بہت اچھا محسوس ہوا کیونکہ ’وہ تو ہالی وڈ کے اداکار لگتے ہیں نہیں بلکہ ایک دم مست ہیں ہماری طرح۔‘
انہوں ںے انگریزی میں کام کرنے کو مشکل قرار دیا کیونکہ وہ 40 سال سے اردو میں کام کررہے ہیں اور سوچتے بھی اردو ہی میں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فیصل کا کہنا ہے کہ شوبز کی صنعت میں شکایتیں کرنے سے بہتر ہے کہ اپنے تئیں بہتر سے بہتر کیا جائے اور وہ سیٹ پر سب سے دوستوں کی طرح رہیں۔
اپنے ڈرامے 'لوگ کیا کہیں گے' کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس کی جھلکیوں سے اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ ابھی اس کی پہلی قسط آنی ہے اور یہ کہانی روایتی ڈراموں سے مکمل طور مختلف ہے۔ اس ڈرامے میں معاشرے میں بییوہ عورت کی مشکلات پر بہت تفصیل سے بات کی گئی ہے۔
اپنے دوسرے ڈرامے 'مقدر' کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس کی مقبولیت بہت زیادہ ہے جس کے لیے انہوں نے اپنا وزن بھی بڑھایا تھا جس اب تک کم کررہے ہیں۔
فیصل قریشی نے زی فائیو اسٹریمنگ ایپ کے بارے میں کہا کہ یہ بہت خوش آئند ہے کیونکہ دبئی میں انہیں ایک بھارتی مسلم خاتون نے بتایا کہ جب زی زندگی پر پاکستانی ڈرامہ آتا تھا تو ممبئی میں ان کا علاقہ سنسان ہوجاتا تھا۔
فیصل قریشی نے ارطغرل کی ہیروئین کے پاکستان آنے کو بھی سراہا اور کہا کہ جو بھی اس پر اعتراض کررہے ہیں انہیں وسعت نظری کی ضرورت ہے۔
مکمل انٹرویو یہاں دیکھیے:
ان کا کہنا تھا کہ چند اشتہارات جانے سے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ اس سے پاکستان کی مارکیٹ بڑھے گی اور نئے پاکستانی اداکاروں کو اس سے بہت فائدہ ہوگا۔
کرونا وائرس کی وبا سے پاکستان کے بند پڑے سینما گھروں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس سے تو پوری دنیا ہی متاثر ہے، مگر ہمیں ڈرائیو ان اور سینما آن ویلز کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ٹویٹ کرنے اور انسٹاگرام پر ویڈیو ڈالنے سے بہتر ہے کہ فلم بنائیں، لوگوں کو بتائیں وسعت دیں، خاص کر انہیں سمجھانے کی ضرورت ہے جو بڑی عقلوں کے ساتھ چھوٹی سوچ لے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں کام کرنے کی ضرورت ہے ، اس بارے میں فلم اور ڈرامہ بہت اہم ہے، ہم نے سب سے پہلے بچوں کے استحصال پر ڈرامہ 'روگ' بنایا، پھر جعلی عاملوں کے خلاف 'سبز پری لال کبوتر' بنایا، اسی طرح ایک ڈرامے میں فرقہ واریت کے خلاف پیغام دیا گیا، جس میں دو سگے بھائی الگ الگ گھر میں پلے ایک سنی گھرانہ تھا ایک شیعہ ، اسی طرح ہم نے بات کرنے کی ضرورت پر زور دیا، لوگوں کو سمجھانا ہے اور انسانیت سکھانی ہے اور فلم اور ڈرامے کے ذریعے سکھائی جاسکتی ہے اور اسی سلسلے میں ہمیں مدد بھی چاہیے۔