بلوچستان یونیورسٹی میں ہراسانی سکینڈل کی تحقیقات کے بعد یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے گورنر بلوچستان سے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اقبال کے خلاف جوڈیشل انکوائری اور ان سے تمام ایوارڈ اور ٹائٹلز واپس لینے کی سفارش کردی ہے۔
دوسری جانب یونیورسٹی میں خفیہ کیمروں سے طالبات کی ویڈیوز بنانے کا الزام ثابت ہونے پر یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے دو ملازمین کو برطرف اور سابق رجسٹرار اور ٹرانسپورٹ آفیسر کی دو سال کی انکریمنٹ بھی روک دی ہے۔
جامعہ بلوچستان میں گذشتہ سال ہراسانی سکینڈل سامنے آیا تھا، جس کے خلاف طلبہ اور سیاسی جماعتوں کی احتجاجی تحریک شروع ہوئی اور حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو انکوائری کی ہدایت کی تھی، جس کی روشنی میں جامعہ کے سنڈیکیٹ کے اجلاس میں یہ فیصلہ دیا گیا ہے۔
جامعہ بلوچستان کے سنڈیکیٹ کا اجلاس گذشتہ روز وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمان کی زیرِ صدارت ہوا، جس کا ایجنڈا ہراسانی سکینڈل کے حوالے سے بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر ایف آئی اے کی انکوائری کی روشنی میں ملزمان کے خلاف کارروائی کرنا تھا۔
اجلاس میں بلوچستان ہائی کورٹ کے نمائندے جسٹس ہاشم کاکڑ ، وزیراعلیٰ بلوچستان کی مشیر بشریٰ رند، روشن خورشید بروچہ، ڈاکٹر سعود بلوچ، محمد ایوب بلوچ، ڈاکٹر کلیم اللہ، پروفیسر باقی جتک، ڈاکٹر فرید اچکزئی و دیگر اراکین نے شرکت کی۔
یاد رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی ہراسانی کیس میں 30 جون کو سماعت کے دوران بلوچستان ہائی کورٹ نے جامعہ کے سنڈیکیٹ کو ایف آئی اے کی رپورٹ کے تناظر میں اجلاس طلب کرکے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔
جامعہ بلوچستان کے اکیڈمک سٹاف کے ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'چونکہ سنڈیکیٹ کے اختیار میں بعض چیزیں نہیں ہیں، خاص طور پر یہ کہ سابق وائس چانسلر جن کے دور میں ہراسانی سکینڈل سامنے آیا ہے ان کے خلاف کارروائی کرے، اس لیے گورنر بلوچستان سے سفارش کی گئی کہ انہیں جو بھی صدارتی ایوارڈ یا دیگر ایوارڈز دیے گئے ہیں، وہ واپس لیے جائیں اور ان کے خلاف جوڈیشل انکوائری کروائی جائے۔'
ذرائع نے بتایا کہ 'جامعہ بلوچستان میں سرویلنس کے لیے 80 سے 90 کیمرے لگائے گئے تھے، جن میں سے دو کیمرے خفیہ رکھے گئے تھے، جن سے طالبات کی خفیہ ویڈیوز بنائی جاتی رہیں۔ اجلاس میں ان ہی افراد کے خلاف کارروائی کی گئی جو یہ ویڈیوز بناتے رہے تھے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلوچستان یونیورسٹی صوبے کا قدیم تعلیمی ادارہ ہے، جہاں نہ صرف کوئٹہ شہر بلکہ صوبہ بھر سے طلبہ اور طالبات کی بڑی تعداد تعلیم حاصل کرنے آتی ہے۔
بلوچستان یونیورسٹی ہراسانی سکینڈل نے نہ صرف طالبات کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگادیا تھا بلکہ بعض والدین نے اپنی بچیوں کو یونیورسٹی جانےسے بھی منع کردیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ہراسانی سکینڈل سامنے آنے پر یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبہ نے ایک طویل عرصے تک احتجاج کیا جس میں بعدازاں سیاسی جماعتوں نے بھی حصہ لیا۔
اکیڈمک سٹاف کے مذکورہ ذرائع نے مزید بتایا کہ 'ایف آئی اے کی تحقیقات ویسی نہیں ہوئیں، جیسی ہونی چاہییں تھیں۔ ہم سمجھتے ہیں اگر یہ انکوائری ہماری لیویز فورس سےکرائی جاتی تو شاید یہ بہتر ہوتی کیونکہ یہ ہماری یونیورسٹی کی ساکھ کا معاملہ ہے اور اس فیصلے سے ہی طالبات کے والدین کا اعتماد بحال ہوسکتا ہے۔'
ذرائع نے مزید بتایا کہ اکیڈمک اسٹاف نے اس وقت بھی مطالبہ کیا تھا کہ یونیورسٹی ہراسانی سکینڈل میں جس کا بھی نام آئے، اس کے خلاف مقدمہ درج کرکے کارروائی کی جائے اور انکوائری کو بھی پبلک کیاجائے۔
یونیورسٹی ہراسانی سکینڈل کیس بلوچستان ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور آئندہ سماعت پر سنڈیکیٹ کی کارروائی بھی پیش کی جائے گی، جس کے حوالے سے عدالت نے گذشتہ سماعت پر حکم جاری کیا تھا۔
دوسری جانب ہراسانی سکینڈل کے خلاف احتجاج کرنے والی بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی انکوائری رپورٹ کو طلبہ کے سامنے لانے اور یونیورسٹی سے سکیورٹی فورسز کا انخلا بھی چاہتی ہے۔