پشاور کے ایک رہائشی کو مقامی عدالت میں جج کے سامنے اس وقت قتل کیا گیا جب عدالت میں توہین مذہب کیس کی سماعت ہورہی تھی۔
سٹی کیپیٹل پولیس آفیسر محمد علی گنڈاپور نے عدالت کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ ایک شخص کو سیشن جج شوکت علی کے سامنے قتل کر دیاگیاہے جبکہ قتل کرنے والے ملزم کو گرفتار کر لیاگیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پولیس تفتیش کر رہی ہے اور سی سی ٹی وی فوٹیج کو بھی دیکھے گی کہ قتل کرنے والے ملزم پستول کے ساتھ کیسے کمرہ عدالت میں داخل ہوا ہے۔
قتل ہونے والے شخص کانام طاہر احمد بتایا جاتا ہے اور پشاور کےاچینی بالا علاقے سے ان کا تعلق ہے۔ عدالتی ریکارڈ کے مطابق قتل ہونے والے شخص پر توہین مذہب کا کیس گزشتہ دو سالوں سے چل رہا تھا۔
ملزم کے خلاف درج ایف آئی آر میں ان کے اوپر آئین پاکستان کی دفعہ295اے،بی، سی جو توہین مذہب کے بارے میں ہیں اور دفعہ 198 سمیت دفعہ 253 کے تحت مقدمہ درج تھا۔
ملزم کے خلاف کون سا مقدمہ درج تھا؟
قتل ہونے والے ملزم پر آئین پاکستان کی دفعہ 295 اور دفعہ 198 سمیت 253 کے تحت مقدمہ نوشہرہ کے ایک رہائشی کی مدعیت میں 2018 میں درج کیا گیا تھا۔
ملزم پر درج ایف آئی آر کی کاپی جو انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، اس میں درخواست گزار کی جانب سے لکھا گیا ہے کہ مذکورہ شخص طاہر نسیم نے درخواست گزار کو فیس بک پر دوستی کا پیغام بھیجا اور اس کے بعد انھوں نے اپنے عقیدے کا پرچار شروع کیا۔
مقدمے کے مطابق درخواست گزار کا کہنا ہے کہ مذکورہ ملزم نے بعد میں یہ دعویٰ کیا کہ وہ اس صدی کے مجدد ہیں اور انھیں مناظرے کا چیلنج دے دیا جو قبول کر لیا گیا۔ درخواست گزار اس وقت اسلام آباد کے ایک مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
درخواست گزار کے مطابق مناظرے کے لیے وہ پشاور پہنچ گئے اور مناظرے کے دوران ملزم نے کہا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہیں اور پندرہویں صدی کے مجدد ہیں جبکہ درخواست گزار کے مطابق ملزم نے یہ بھی بتایا کہ ان کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقدمے کے مطابق درخواست گزار نے لکھا ہے کہ اس بات کے ثبوت ان کے پاس موجود ہیں کہ اس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس لیے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
اسی کیس کی سماعت کے دوران ملزم طاہر نسیم کو جج کے سامنے قتل کیا گیا۔
کمرہ عدالت میں موجود ایک وکیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قتل کرنے سے پہلے گولی چلانے والے شخص یہی کہہ رہے تھے کہ 'یہ شخص احمدی ہے اور توہین مذہب کے مرتکب ہوئے ہیں،' جس کے بعد انھوں نے پستول نکال کر ملزم پر فائرنگ کردی۔