کیا کرونا ہمارا مشترکہ خاندانی نظام ختم کروا سکے گا؟

یہاں تو ہر گھر کی ایک سی کہانی ہے۔ بیٹیاں رخصت کرنے کو ہر کوئی تیار بیٹھا ہے لیکن بیٹوں کو الگ کرنے کا کسی کا دل نہیں کرتا۔ تمام بیٹے ایک ہی چھت کے نیچے رہیں، یہ سوچ کر ہر بیٹے کو شادی کے وقت ایک کمرہ دے دیا جاتا ہے۔

(اے ایف پی)

پاکستان میں ایک بڑی آبادی مشترکہ خاندانی نظام کے تحت رہتی ہے۔ آپ نہیں تو آپ کے گرد و نواح میں ایسے بہت سے مکان ہوں گے جن کے ایک ایک کمرے میں پورے خاندان رہ رہے ہوں گے۔

ان مکانوں میں بیت الخلا بھی گنتی کے ہی ہوتے ہیں جنہیں خاندان کا ہر فرد استعمال کرتا ہے۔ ان گھرانوں میں سماجی فاصلے کے اصول پر کس طرح عمل کیا جا سکتا ہے؟

ایسے گھرانوں میں کسی ایک فرد کو بھی عام نزلہ، زکام یا کھانسی ہو جائے تو کچھ ہی دن میں باقی افراد بھی بیمار پڑ جاتے ہیں۔ ایسے گھروں میں کرونا پھیلنے کا چانس بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بہت سے لوگ کرونا کا شکار اسی وجہ سے ہوئے۔ خاندان کے ایک فرد کو کہیں سے وائرس لگا اور اس سے باقی افراد کو بھی منتقل ہو گیا۔

پشاور میں ایک صحافی کرونا کا شکار ہوئے تو ان سے یہ مرض ان کے گھر کے گیارہ افراد کو منتقل ہوا۔ حکومت کی طرف سے انہیں گھر میں قرنطینہ ہونے کا مشورہ تو ضرور ملا پر ایسا کرنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ ان کے چھوٹے سے گھر میں سترہ افراد رہ رہے تھے۔ گھر میں ایک کونہ بھی ایسا نہیں تھا جہاں کوئی فرد چودہ دن علیحدگی میں گزار سکے۔

یہاں تو ہر گھر کی ایک سی کہانی ہے۔ بیٹیاں رخصت کرنے کو ہر کوئی تیار بیٹھا ہے لیکن بیٹوں کو الگ کرنے کا کسی کا دل نہیں کرتا۔ تمام بیٹے ایک ہی چھت کے نیچے رہیں، یہ سوچ کر ہر بیٹے کو شادی کے وقت ایک کمرہ دے دیا جاتا ہے۔ وہ اس کمرے میں جتنے مرضی بچے پیدا کرے، اگلے دس سے پندرہ سال اسے اپنی بیوی اور بچوں سمیت اسی کمرے میں رہنا ہوتا ہے، کچھ لوگ تو اس سے زیادہ عرصہ تک ساتھ رہتے ہیں۔

ان لوگوں میں بہت سے لوگ ایسے ہو سکتے ہیں جو غربت کی وجہ سے علیحدہ رہنا برداشت نہیں کر سکتے لیکن ایسے لوگوں کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا جو محض اس لیے الگ نہیں ہو سکتے کہ گھر کا کوئی بڑا فرد برا مان جائے گا۔ اس صورتحال میں ان کے دو ہی سہارے ہوتے ہیں، دعا یا ایک بڑی سی لڑائی۔ کچھ لوگوں کی دعائیں رنگ لے آتی ہیں اور کچھ کو کسی بڑے جھگڑے کا انتظار کرنا پڑتا ہے جس کے بعد انہیں الگ ہونے کی اجازت مل جاتی ہے۔

یہی اجازت بغیر کسی لڑائی یا جھگڑے کے دے دی جائے تو شائد بعد میں سب ہنسی خوشی ایک دوسرے سے ملتے بھی رہیں۔ لڑائیوں کے بعد الگ ہونے والے مشکل سے ہی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے پر راضی ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرونا کو آئے آٹھ ماہ ہو چکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت صاف صاف کہہ چکا ہے کہ اس کا علاج ممکن نہیں اور ہمیں اپنی باقی زندگی اس کے ساتھ ہی گزارنی ہونی۔ اس وقت کرونا سے بچنے کا واحد حل سماجی فاصلہ برقرار رکھنے میں ہے جو گھر سے باہر تو بندہ کسی نہ کسی طرح بنا ہی لیتا ہے لیکن گھر کے اندر ایسا کرنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔

مشترکہ خاندانی نظام کے جتنے فائدے ہیں، اتنے ہی نقصانات بھی ہیں۔ گھر کے افراد میں جھگڑا ہو جانا عام سی بات ہے۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ گھر میں کئی خاندان تو رہ رہے ہوتے ہیں لیکن آپس میں ان کی بات چیت نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ سب کی پرائیویسی بھی متاثر ہوتی ہے۔ جن روائیتوں سے گھر کے افراد تنگ ہوتے ہوں، ان روائیتوں کو ختم کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کسی بڑی سی حویلی میں تو قائم کیا جا سکتا ہے لیکن پانچ مرلے کے گھر میں یہ ایک تکلیف سے زیادہ کچھ نہیں۔

کرونا کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک میں عبادت گاہیں اب تک بند پڑی ہیں۔ اس سال تو حج بھی محدود سطح پر ہوا۔ اتنا سب کچھ تبدیل ہو سکتا ہے تو ہمارا خاندانی نظام کیوں نہیں بدل سکتا؟

ہم چاہیں یا نہ چاہیں، ہمیں اپنے بچوں اور بڑوں کی صحت کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی ہوگا۔ ہمیں اپنے پیاروں کو خود سے الگ کرنا ہوگا تاکہ ہم سب ایک صحت مند زندگی گزار سکیں۔ مشترکہ خاندانی نظام کے بہت سے فوائد میں سے کوئی ایک بھی فائدہ ایسا نہیں جس کے لیے انسان اپنی زندگی خطرے میں ڈالے۔ ایک ہی گھر میں سب کے ساتھ مل جل کر رہنا شائد پہلے ایک چوائس تھی پر اب اسے چوائس سمجھنا اپنی اور دوسروں کی زندگی سے کھیلنے کے برابر ہے۔ ہم پسند کریں یا نہ کریں ہمیں اپنے بچوں کو علیحدہ رہنے کی اجازت دینا ہوگی تاکہ وہ صحت مند زندگی گزار سکیں۔ یاد رکھیں، بات اب عزت کی یا خاندان کے اصولوں کی نہیں بلکہ صحت کی ہے جس کے آگے کوئی اور چیز اہم نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ