اداکارہ ایمی شُمر نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ ان کے شوہر کرس فِچر کو آٹزم سپیکٹرم ڈس آڈر کا مرض لاحق ہے۔
نیٹ فلکس پر نشر ہونے والے خصوصی پروگرام ’ایمی شُمر، گروئنگ‘ میں 37 سالہ مزاحیہ اداکارہ نے کھل کر اپنی ازدواجی زندگی اور اپنے شوہر کی بیماری کے حوالے سے بات کی ہے۔
’مجھے شروع سے اندازہ ہو گیا تھا کہ میرے شوہر کا دماغ مجھ سے ذرا مختلف ہے اور میں یہ اس لیے بتا رہی ہوں تاکہ اسے ٹھیک کیا جا سکے کیوں کہ میں ان سے بے حد پیار کرتی ہوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹروں نے جب مرض کی تشخیص کی تو یہ ان کے لیے حیران کن بات نہیں تھی کیوں کہ 2018 میں شادی سے پہلے ملاقاتوں کے دوران کرس میں اس مرض کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں۔
’جب کِرس کو اس مرض کے بارے میں پتہ چلا تو وہ مجھ پر گِر گئے، یہ سوچنا ہی کتنا مزاحیہ ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ میں ان سے پاگل پن کی حد تک محبت کرتی ہوں اور یہی اصل حقیقت ہے۔‘
آٹزم سپیکٹرم ڈس آڈر ہے کیا؟
نیشنل آٹزمِک سوسائٹی کے مطابق آٹزم سپیکٹرم ڈس آڈر تاحیات نشوونما پانے والی ذہنی معذوری کا نام ہے جس سے دنیا کو دیکھنے کا طریقہ اور لوگوں سے روابط متاثر ہوتے ہیں۔
اس مرض میں مبتلا مریض اپنے اردگرد ماحول یا لوگوں کا مختلف انداز سے مشاہدہ کرتے ہیں جس سے ان کے لوگوں سے روابط اور تعلق بنانے کی صلاحیت پر فرق پڑتا ہے۔
اس سپیکٹرم میں مبتلا افراد کی مشکلات ایک جیسی ہوتی ہیں تاہم ان کو مختلف صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ مرض کتنا عام ہے؟
صرف برطانیہ میں آٹزم سپیکٹرم ڈس آڈر میں مبتلا افراد کی تعداد سات لاکھ سے زیادہ ہے یعنی ہر سو میں سے ایک شخص اس مرض کا شکار ہے۔
یہ مرض دنیا میں کسی بھی نسل، ثقافت یا مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو لاحق ہو سکتا ہے تاہم خواتین کے مقابلے میں مردوں میں اس کی شرح زیادہ ہے۔
اس کی علامات کیا ہیں؟
اگرچہ مختلف افراد میں اس مرض کی علامات مختلف ہو سکتی ہیں تاہم کچھ خصوصیات مشترک ہیں جیسا کہ دوسرے لوگوں کو سمجھنا اور ان سے تعلق بنانے میں مشکلات یا روزمرہ زندگی کے امور کی انجام دہی میں خلل۔
اس مرض میں مبتلا افراد شرمیلے، سنجیدہ اور جذباتی روئیوں کے مالک ہوتے ہیں۔
کیا آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر کا علاج ممکن ہے؟
آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر ساری عمر رہنے والی بیماری ہے اور اس مرض میں مبتلا کئی افراد کے لیے یہ ان کی پہچان بھی ہے۔
تاہم آج کئی ایسے پروگرام موجود ہیں جن میں آٹزم سے متاثرہ افراد کو حکمت عملی اور برتاؤ کے ذریعے اس مرض کا مقابلہ کرنے کے لیے مدد فراہم کی جا رہی ہے۔
متاثرہ بچوں کے والدین کے لیے بھی بہت سے پروگرام متعارف کرائے جا رہے ہیں جن کی مدد سے وہ اس مرض کے اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔