پاکستان میں کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے باعث تعلیمی اداروں میں آن لائن کلاسز کے بعد آن لائن امتحانات کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔
بعض نجی یونیورسٹیوں اور کالجوں نے عید سے قبل بی اے اور بی ایس سی کے امتحانات لے لیے مگر پنجاب یونیورسٹی نے پانچ اگست سے بی اے اور بی ایس سی کے آن لائن امتحانات کا سلسلہ شروع کیا ہے، جو چار ستمبر تک جاری رہے گا۔ ان امتحانات کے لیے چند ماہ سے تیاری جاری تھی اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد نے 29 جولائی کو ان امتحانات کا اعلان کیا تھا۔
ان امتحانات میں طالب علموں کو کافی چھوٹ دی گئی تھی، مثلاً ہر طالب علم یہ امتحان دینے کے لیے مجبور نہیں ہوگا، وہ چاہے تو کرونا وبا کی صورت حال معمول پر آنے کے بعد روایتی طریقہ امتحان کو اپنا سکتا ہے اور جو طالب علم آن لائن امتحانات کے طریقے یا اس کے نتائج سے مطمئن نہیں، وہ دوبارہ روایتی امتحانات میں بغیر کسی اضافی فیس کے بیٹھ سکتے ہیں۔
ایسی صورت میں یہ طالب علم پر منحصر ہوگا کہ وہ اپنا آن لائن والا نتیجہ چن لے یا روایتی امتحانات میں آنے والے نتیجے کو، یونیورسٹی ان پر کوئی دباؤ نہیں ڈالے گی۔
اسی طرح اگر کوئی طالب علم انٹرنیٹ، بجلی کی معطلی یا کسی اور وجہ سے امتحان آن لائن نہیں دے سکے تو وہ اپنا اس دن کا پرچہ کینسل کروا سکتا ہے اور یہ ان کو حاصل امتحانی چانسز میں شامل نہیں ہوگا۔
آن لائن امتحانات کا طریقہ؟
پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان خرم شہزاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کووڈ 19 کے دوران بی اے اور بی ایس سی کی آن لائن کلاسسز کا آغاز تو ہو گیا تھا مگر امتحانات لینا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان تھا کہ اس کا کیا طریقہ کار ہوگا؟ اس میں طالب علم کی موجودگی کا مسئلہ تھا، یونیورسٹی اور طالب علم دونوں کی کپیسٹی بلڈنگ کا مسئلہ تھا۔
'پہلے ہم نے پوری کوشش کی کہ امتحانات روایتی انداز میں ہو سکیں لیکن حالات کے پیش نظر یہ امتحانات تاخیر کا شکار ہوتے جا رہے تھے، اس پر ہم نے فیصلہ کیا کہ طالب علموں کے سال کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔'
خرم کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کے سب سے پہلے آن لائن امتحانات ہیں جو اتنے بڑے پیمانے پر ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت پنجاب میں 85 ہزار طالب علم بی اے اور بی ایس سی پارٹ ٹو کے ہیں، جن میں سے بیشتر نے آن لائن امتحان دینے کو ترجیح دی جبکہ 25 ہزار کے قریب طالب علم روایتی طریقہ امتحان کو ہی اپنانا چاہتے ہیں۔
یہ امتحانات 'گوگل میٹ' سروس کے ذریعے لیے جا رہے ہیں۔ خرم نے بتایا: 'ہم امتحان شروع ہونے سے آدھا گھنٹہ پہلے طالب علم کو پرچہ بھیج دیتے ہیں جو امتحان کے مقررہ وقت پر ان کے پاس کھلتا ہے اور ہر طالب علم کا پرچہ دوسرے طالب علم سے فرق ہو، اس کے لیے ہم نے ایک سوالات کا بینک بنایا ہے تاکہ طلبہ آپس میں اشاروں کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے نقل کی پوزیشن میں نہ ہوں۔'
انہوں نے تفصیلاً بتایا کہ ہر 25 طالب علموں پرایک پراکٹر(نگران) مقرر کیا گیا ہے اور ہر 25 پراکٹرز پر ایک سپرنٹنڈنٹ، ان سب کی مانیٹرنگ کے لیے تین کنٹرول رومز ہیں جہاں طالب علموں کو امتحان کے دوران پیش آنے والے مسائل کو آن لائن گائیڈنس، ہاٹ لائن یا گوگل میٹ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
خرم نے مزید بتایا کہ آن لائن امتحانات میں نقل روکنے کے لیے طالب علم کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اپنا مائیک اور کیمرہ بند نہیں کر سکتے۔ اسی طرح پرچہ شروع کرنے سے پہلے انہیں اپنے کمرے اور لیپ ٹاپ جس میز پر ہے، اس کا ویو دکھانا پرتا ہے۔ 'انہیں پرچے کے دوران کوئی بریک نہیں دی جاتی اور سکرین پر سوال صرف 45 سیکنڈ کے لیے رہتا ہے اس کے بعد وہ غائب ہو جاتا ہے، اس لیے نقل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔'
ترجمان پنجاب یونیورسٹی کے مطابق امتحانات سے قبل منگل تک طالب علموں کے مشقی امتحانات لیے جاتے رہے تاکہ انہیں آن لائن امتحان دینے کا تجربہ ہو سکے۔ ان کے خیال میں بدھ کو ہونے والے پہلے پرچے کا تجربہ کافی اچھا رہا۔ 'ابھی تو پہلا پیپر تھا اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ نقل ہوئی یا نہیں۔'
'ہم آن لائن چیزیں کاپی پیسٹ کر دیتے تھے'
ایک نجی یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینیئرنگ میں بی ایس سی کرنے والے عاصم نے بتایا: 'آن لائن کلاسوں کے دوران ہم سو بھی جاتے تھے، کلاس تب بھی چل رہی ہوتی تھی، ہم نے کلاس پوری لی یا نہیں، سلیبس ہمیں مل جاتا تھا۔ ہم انٹرنیٹ سے چیزیں اٹھا کر کاپی پیسٹ کر دیتے تھے اور اب امتحانات میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ ہم نے سمیسٹر کی فیس دے دی اور اس کی ڈگری ہمیں بغیر کسی محنت کے مل گئی۔'
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے عاصم نے بتایا کہ عید سے قبل انہوں نے اپنے چھٹے سمیسٹر کے آن لائن امتحانات دیے، ان کے خیال میں آن لائن پڑھائی اور پھر امتحانات کا تجربہ کچھ خاص سود مند ثابت نہیں ہوا۔
'یوں سمجھیں کہ ہم نے اسے اپنے سر سے اتارا ہے۔ امتحانات جب یونیورسٹی میں ہوتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے پاس نقل کا موقع کم ہوگا، اس لیے ہمیں محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ہماری پڑھائی میں کہاں کسر رہ گئی مگر آن لائن میں تو کچھ بھی نہیں تھا۔'
عاصم نے بتایا کہ یونیورسٹی پورٹل پر سب طالب علموں کا اکاؤنٹ بنا ہوتا ہے جہاں یونیورسٹی کی جانب سے صبح نو بجے پرچہ اپ لوڈ کر دیا جاتا تھا اور ہمیں اسے حل کرکے دوپہر ایک بجے تک واپس کرنا ہوتا تھا۔
'اب یہ ہماری مرضی کہ ہم اسے خود حل کریں، کسی سے مدد لیں یا پھر انٹرنیٹ سے کاپی پیسٹ کریں۔ میرے خیال میں سبھی طلبہ نے آن لائن امتحانات میں نقل کی ہوگی۔ ہمیں یونیورسٹی والوں نے خود بھی اجازت دی تھی کہ امتحان اوپن بک کی طرز پر ہے اس لیے آپ اسے حل کرنے کے لیے کہیں سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔'
اساتذہ نے نقل کیسے پکڑی؟
تبجیل اشرف چیمہ ویسے تو ایک سرکاری ملازم ہیں مگر وہ کچھ تعلیمی اداروں میں وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر پڑھاتے ہیں اور آن لائن کلاسز خود پڑھنے اور پڑھانے کا بھی خاصہ تجربہ رکھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تبجیل نے اپنا مشاہدہ کچھ یوں بیان کیا: 'آن لائن پڑھائی کا یہ مسئلہ ہے کہ بچہ آن لائن کلاس میں بھی ہے اور ساتھ ویڈیو گیمز بھی کھیل رہا ہے۔ اس پر نظر رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ دوسری جانب اساتذہ کے لیے بھی آن لائن کلاسز نئی چیز تھی جبکہ تعلیمی ادارے بھی الجھن کا شکار تھے۔'
تبجیل کے خیال میں ان امتحانات کے دوران نقل بہت زیادہ ہوئی۔ 'میں نے ذاتی طور پر پیسے خرچ کر کے کچھ ٹیسٹنگ ٹولز خریدے، جس کے ذریعے طالب علموں کی نقل کھل کر میرے سامنے آ جاتی تھی اور یہ بہت تکلیف دہ تھا۔'
'یہ ٹول گوگل فارمز کے ساتھ لگتا ہے اور جب آپ گوگل فارم پر سوال نامہ اپ لوڈ کرتے ہیں اور طالب علم اس کے جواب بھرنا شروع کرتا ہے تو اس فارم کے بیک اینڈ پر یہ ٹول چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ اب جیسے ہی طالب علم اس فارم کو بھرنے کے دوران کوئی اور ایپلی کیشن استعمال کرتا ہے، جیسے واٹس ایپ وغیرہ تو یہ فوراً اس ایپ کے استعمال کو ریکارڈ کر لیتا ہے۔'
تبجیل نے مزید بتایا 'جب میں نے دو تین پیپر لیے تو مجھے معلوم ہوا کہ 90 فیصد طلبہ یہ کام کر رہے تھے جس کے بعد ہمیں بچوں کو بتانا پڑا کہ اپنا امتحان دیتے وقت کوئی اور ایپ استعمال نہ کریں کیونکہ ان کی آن لائن سرگرمی ریکارڈ ہو جائے گی۔ اس کے باوجود کچھ طالب علم باز نہیں آئے، جس پر میں بہت دل برداشتہ ہوا۔'
ظل ہما ایک نجی یونیورسٹی میں سائیکالوجی پڑھاتی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے گریجویشن لیول کے امتحانات لیے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آن لائن امتحانات کے دوران طالب علموں کے پاس کتابیں اور انٹرنیٹ موجود ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، اس لیے نقل کا امکان بھی بڑھ گیا تھا۔
'اسی خدشے کو پیش نظر میں نے پوری کوشش کی کہ ایسے پرچے بناؤں جس کو حل کرتے ہوئے طالب علموں کو اپنا دماغ استعمال کرنے کا موقع ملے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امتحانات کے بعد جب طالب علموں نے بحیثیت استاد میری اویلیوایشن کی تو میرے متعلق منفی رائے دی۔'
'میرا سب سے برا تجربہ یہ ہوا کہ کچھ طلبہ نے ایسے سافٹ ویئر خرید لیے جس میں وہ سوال ڈالتے تھے تو اس کا جواب سامنے آجاتا تھا اور وہی جواب وہ کاپی پیسٹ کر دیتے تھے۔ جب ہم ان کا آن لائن پیپر کھولتے تھے تو ہمیں نوٹفیکیشنز آتی تھیں کہ یہ جواب فلاں سافٹ ویئر کا ہے جس کی وجہ سے چربہ سازی کا مسئلہ بہت زیادہ رہا۔'