ایران پر پابندیوں میں توسیع پر غور، جوہری معاہدے کو خطرہ

واشنگٹن کی طرف سے معاہدے سے  نکلنے اور یک طرفہ طور پر سخت پابندیاں لگائے جانے کے بعد ایران پہلے ہی معاہدے کے کئی حصوں کی خلاف ورزی کرچکا ہے اور پابندیوں میں مزید توسیع سے معاہدے کو مزید خطرہ ہوگا۔ 

ایران پر پابندیوں میں تجدید کو پہلے والی صورت حال کی جانب واپسی سمجھیا جا رہا ہے جس سے ایٹمی معاہدہ ختم ہو جائے گا کیونکہ ایران  اپنی ایٹمی سرگرمیاں محدود کرنے کے لیے بڑی ترغیب سے محروم ہو جائے گا۔ (اے ای پی)

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل اس ہفتے امریکہ کی اس قرارداد پر رائے شماری کی تیاری کر رہی ہے جس کا مقصد ایران پر عائد ہتھیاروں کی پابندی میں توسیع ہے۔ تاہم بعض سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ناکام ہو گا اوراس سے تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایٹمی معاہدے کا مستقبل مزید خطرے میں پڑ جائے گا۔

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق سفارت کاروں نے کہا ہے کہ ایران پر اسلحے کی تیاری پر پابندی میں توسیع کے لیے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی طرف سے چین اور روس کو راضی کرنے کی آخری لمحات میں کی جانے والی کوشش اب تک ناکام رہی ہے۔ ایران کے اتحادی چین اور روس ایک عرصے سے امریکی اقدام کی مخالفت کا اشارہ کرتے آ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ میں ایک چینی سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ ایران پر پابندی میں توسیع  کا عمل چاہے اس کی کوئی بھی شکل ہو اس کی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ اس اقدام سے ایٹمی معاہدہ قائم رکھنے کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی تجویز کی منظوری کا کوئی امکان نہیں ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کیلی کرافٹ نے فوکس نیوزکو بتایا ہے کہ روس اور چین ایران پر ہتھیاروں کی پابندی کے خاتمے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ دونوں ملک انتظار میں ہیں کہ وہ پابندی ختم ہونے کے بعد ایران کو ہتھیار فروخت کر سکیں۔

واضح رہے کہ ایران پر ہتھیاروں کی پابندی اکتوبر میں ختم ہو جائے گی۔ یہ پابندی 2015 میں ایران، روس، چین، جرمنی، برطانیہ، فرانس اور امریکہ  کے درمیان طے ہونے والے اس معاہدے کے تحت ختم ہو رہی ہے جس میں طے پایا تھا کہ پابندیوں میں نرمی کے بدلے ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا۔

اگرچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ 2018 میں اس معاہدے سےالگ ہو گئی تھی اور ٹرمپ نے اس معاہدے کو بدترین قراردیا تھا، واشنگٹن نے معاہدے میں موجود ایک شق استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے جس کا مقصد سلامتی کونسل کی جانب سے ہتھیاروں کی پابندی میں غیرمعینہ مدت تک توسیع نہ کیے جانے کی صورت میں اقوام متحدہ کی تمام پابندیوں کی بحالی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران پر پابندیوں میں تجدید کو پہلے والی صورت حال کی جانب واپسی سمجھیا جا رہا ہے جس سے ایٹمی معاہدہ ختم ہو جائے گا کیونکہ ایران  اپنی ایٹمی سرگرمیاں محدود کرنے کے لیے بڑی ترغیب سے محروم ہو جائے گا۔

واشنگٹن کی طرف سے معاہدے سے  نکلنے اور یک طرفہ طور پر سخت پابندیاں لگائے جانے کے بعد ایران پہلے ہی معاہدے کے کئی حصوں کی خلاف ورزی کرچکا ہے۔ 

ایک یورپی سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ امریکی انتظامیہ کا مقصد ایران کا ایٹمی معاہدہ ختم کرنا ہے۔ ایران کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے برائن ہک نے گذشتہ ہفتے اشارہ دیا تھا کہ امریکہ ایران پر تمام پابندیاں دوبارہ لگانا چاہتا ہے۔

ایران پر اقوام متحدہ کی تمام پابندیاں بحال ہونے کی صورت میں یورینیم کی افزودگی اور ری پروسیسنگ سے متعلق تمام سرگرمیاں معطل کرنی ہوں گے جن میں تحقیق اور تیاری کا عمل اور ہر اس چیز کی درآمد پرپابندی شامل ہے جو ان سرگرمیوں یا ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا نظام تیار کرنے میں مدد دے سکتی ہو۔

اسلحے کی پابندی میں توسیع کی صورت میں ایران ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے بیلسٹک میزائل تیار نہیں کر سکے گا جب کہ درجنوں ایرانی شخصیات اور اداروں پر بھی پابندی برقرار رہے گی۔ مختلف ملکوں کو اجازت ہو گی کہ وہ ایران جانے اور وہاں سے آنے والے سامان کا جائزہ لے وہ اشیا قبضے میں لے لیں جن پر پابندی عائد ہے۔

کامیابی کا امکان 'صفر ہے'

اقوام متحدہ کے تنازعات کے انسداد کے لیے قائم انٹرنیشنل کرائیسس گروپ کے ڈائریکٹر رچرڈ گوون نے کہا ہے کہ اس بات کا امکان صفر ہے کہ ایران پر اسلحے کی پابندی میں توسیع کی امریکی تجویز منظور کر لی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تجویز ایٹمی معاہدے سے پہلے والی صورت حال پیدا کرنے کا ایک منصوبہ ہے۔

سلامتی کونسل کی سرگرمیاں آن لائن جاری ہیں اس لیے امریکی تجویز پرووٹنگ کے لیے کونسل کے رکن 15 ملکوں کے پاس 24 گھنٹے ہوں گے کہ اپنا جواب داخل کریں۔

نتیجے کا اعلان عام اجلاس میں کیا جائے گا لیکن سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی تجویز کے موجودہ متن کو بہت کم  حمایت حاصل ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا