یکم اپریل، 1979 کو عوام کی مرضی سے ’اسلامی جمہوریہ ایران‘ باقاعدہ طور پر قائم ہوئی۔
یکم اپریل سے کچھ دن پہلے ایک ریفرنڈم میں حصہ لینے والے 71.6 فیصد لوگوں میں سے 98 فیصد نے اسلامی ریاست کے ’حق‘ میں ووٹ دیا۔
میں فروری میں حکومت کی جانب سے محمد رضا شاہ پہلوی کی حکومت کے خاتمے اور انقلاب ایران کے 40 سال پورے ہونے کی تقریبات میں شرکت کے لیے موجود تھا۔
تاہم مجھے عوام میں ان تقریبات کے حوالے سے زیادہ جوش و جذبہ نظر نہیں آیا کیونکہ ایران کی معیشت مکمل تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور اس کی کرنسی اُتنی ہی کمزور ہے جتنی گذشتہ مئی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2015 کا ایٹمی معاہدہ ختم کرنے کے موقع پر تھی۔
پابندیوں اور دباؤ کے شکار ایرانی لوگ سوشل میڈیا پر قدغن سمیت رائج اسلامی قوانین سے کسی نہ کسی طرح بچ نکلنے کے طریقے ڈھونڈنے میں ماہر ہیں۔
ایران میں بے روزگاری ایک علیحدہ موضوع ہے اور افراط زر میں تاریخی اضافے کی وجہ سے بہتری کی امید نظر نہیں آتی۔
یہاں ملازمین کی آمدنی تو نہیں بڑھی لیکن خوراک سمیت تقریباً تمام اشیا کی قیمتوں میں ڈرامائی مہنگائی دیکھی جا رہی ہے۔
کئی نوجوان ملک میں اپنا مستقبل نہیں دیکھتے اور غیر ملکی زبانیں سیکھانے کے ادارے بیرون ملک جانے والے خواہش مندوں سے بھرے پڑے ہیں۔
اسی طرح کئی ایرانیوں نے بنک اکاؤنٹس سے جمع پونجی نکلوا کر ڈالرز، یوروز یا سونے میں انوسٹ کر دی ہے۔
ان سارے حالات کے باوجود مرکز میں حکومت مستحکم ہے اور دسمبر 2017 میں اکا دکا شروع ہونے والے مظاہرے جو آنے والے کئی مہینوں تک جاری رہے انہیں منظم انداز میں دبا دیا گیا ہے۔
تصاویر: جان شنائیڈر