پاکستان کے 73ویں یومِ آزادی میں بس دو دن رہ گئے ہیں۔ حکومت نے کرونا کے کیسز کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے ملک گیر لاک ڈاؤن بھی ختم کر دیا ہے۔ لڑکوں کی تو عید اب ہوئی ہے۔ یومِ آزادی بھی ہے اور لاک ڈاؤن کے بعد کی آزادی بھی ہے۔
یہ 13 اگست کی شام کو موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر نکلیں گے اور شہر بھر کی سڑکوں پر ہاہاکار مچاتے پھریں گے۔ ان کے ہاتھوں میں بے ڈھنگی آواز نکالنے والے باجے ہوں گے، چہروں پر سفید اور سبز پینٹ ہوا ہو گا، کسی کے کاندھوں پر بندھا پرچم بھی نظر آ ہی جائے گا۔ یہ ہماری آزادی بریگیڈ ہے۔ ان کا آزادی کا جشن کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔
آزادی کی یہ خوشی زیادہ تر مردوں میں ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ عورتیں ایسے موقعوں پر گھروں سے کم ہی باہر نکلتی ہیں۔ معاشرتی بندشیں تو ہیں ہی ہیں، وہ تو شاید خود بھی اپنے آپ کو آزاد نہیں سمجھتیں۔ عورت خود کو آزاد سمجھ کر اپنے پر پھیلانے لگے تو ایک اونچی آواز، ایک تھپڑ، ایک گالی یا ایک گولی اسے آسمان سے زمین پر لا پھینکتی ہے۔ ان کا یومِ آزادی تو جانے کب آئے گا، فی الحال تو ہمارے لڑکے ہی آزادی منا لیں، ہمارے لیے یہی کافی ہے۔
ہم ان کی آزادی میں خوش ہیں ورنہ جہاں دیکھو قیدی نظر آتے ہیں، کوئی اپنی سوچ کا مقید تو کوئی معاشرے کے بنائے نام نہاد رواجوں اور اصولوں میں مقید۔ جو خوش نصیب ان جھنجھٹوں سے آزاد ہیں ان کے پیچھے جنونیت اور طاقت بھاگی پھرتی ہے۔ ان میں سے بھی جو بخت والے ہیں، وہ اس مٹی سے دور کہیں چلے جاتے ہیں جہاں ڈھونڈنے سے بھی مٹی نہیں ملتی۔ یہ خود تو وہاں پہنچ جاتے ہیں پر ان کی روح کہیں پیچھے ہی رہ جاتی ہے۔ صبح ہوتی ہے تو ان کا دل گرما گرم کلچے اور لسی کو ترستا ہے اور شام پڑتے ہی سموسوں کی یاد میں پڑ جاتا ہے۔ یہ ان کی آزادی کی قیمت ہے جو ایسے تو بہت ہلکی لگتی ہے پر جب ادا کرو تو جان نکل جاتی ہے۔
یومِ آزادی ان لوگوں پر بھی بھاری گزرتا ہے جو خود تو آزاد ہیں لیکن ان کے پیارے کہیں کسی تاریک کمرے میں قیدی بنے بیٹھے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا یہ کہاں ہیں، کس حال میں ہیں، بس ایک جدوجہد ہے جو ان کے ملنے تک جاری رہے گی پھر شاید ان کے بھی گھر آزادی کی صبح اترے اور یہ بھی آزادی منائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آزادی ان پر بھی محال ہے جو حقیقی زندگی تو کیا سوشل میڈیا تک پر اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکتے۔ کر دیں تو پکڑے جائیں، کچھ رشتے داروں کے ہاتھوں کہ اب موبائل ہر ہاتھ میں ہے تو کچھ طاقت وروں کے ہاتھوں کہ ان کے ہاتھ میں تو سب کچھ ہی ہے۔ یہ پھر بھی بولتے ہیں، اس آزادی کی خاطر جو 73 برس قبل ملی تھی۔ ہم انہیں بتاتے ہیں کہ وہ تو کب کی کھو چکی یا شاید ملی ہی نہیں تھی۔
ہم نے تو اڑتی پڑتی خبر سنی تھی کہ ہمیں آزادی مل گئی، نہ ہم نے دیکھی، نہ تم نے دیکھی۔ جو دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی باتوں سے خوشی کم اور دکھ زیادہ چھلکتا ہے۔ تم نے آزادی دیکھی ہے تو ہمیں بھی بتاؤ، ہم بھی خوش ہو جائیں۔
نہیں دیکھی تو چپ کر کے بیٹھو، کیوں اپنے اور اپنے گھر والوں کی جان کے دشمن بنتے ہو۔ صبح کام پر جاؤ، شام کو گھر آ کر آلو گوشت کھاؤ، ڈراما دیکھو، گھر والوں سے ہنسی ٹھٹھہ کرو اور پھر سو جاؤ۔ کیوں زندگی مشکل بنائے بیٹھے ہو، آسانی ڈھونڈو اور اس میں خوش رہو۔
ہمارا کام ہے بتانا، جو سن لے اس کا بھلا جو نہ سنے اس کے لیے ہم دعا کریں گے یا اگلے بلاگ میں اس کی مثال دے کر لوگوں کو خبردار کریں گے۔ بس، بھائیو اور بہنو، تم دوسروں کے لیے ایسی مثال نہ بنو۔ اپنی کان اور آنکھیں تو کھولو ہی کھولو، ساتھ ہی ساتھ اپنے ذہن بھی کھولو۔ اتنے زیادہ نہ کھولو کہ درسی کتابوں پر سوال اٹھانے لگ جاؤ، اس سے تھوڑا کم ہی کھولو۔ جو زیاہ شوق چڑھے تو اپنے گیراج کا چکر لگا آؤ۔ گھر میں گیراج ہی نہ ہو یا گیراج میں بلٹ پروف گاڑی نہ کھڑی ہو تو آزادی سے پرہیز ہی کرو، پھر بھی شوق ستائے تو آزادی سیل کا چکر لگا آؤ، آج کل آزادی وہیں ملتی ہے۔
اللہ ہمارے ان ساتھیوں کو بھی آزادی دے جو صحافت میں کسی نہ کسی طرح پھنسے بیٹھے ہیں۔ لکھنا بہت کچھ چاہتے ہیں پر دوسرے کے قلم اور تشدد سے ڈرتے ہیں۔ ان کے گرد ہوا زہر آلود ہے، سانس لیں تو مشکل، نہ لیں تو مشکل۔ کیسی عجیب سی بات ہے کہ ایک آزاد ملک میں آزادی صحافت خطرے میں ہے۔ یہ دنیا ہے ہی ایسی، یہاں انہونی ہی ہوا کرتی ہے، یہ تو خیر اب انہونی بھی نہیں رہی۔
اس سب کے باوجود رسمِ دنیا ہے، سو نبھائے دیتے ہیں۔ آپ سب کو میری طرف سے یومِ آزادی مبارک۔