’میں نے ایک ٹائپ رائٹر اور کلرک کی مدد سے پاکستان جیت لیا۔‘
یہ جملہ محمد علی جناح کا ہے۔ ہندوستان کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ اپنی کتاب ’جناح اتحاد سے تقسیم‘ میں لکھتے ہیں کہ گاندھی اور محمد علی جناح کی پیدائش کاٹھیاواڑ کے پیشہ ور تاجر طبقے میں ہوئی۔ لیکن ان دونوں میں اس کے علاوہ اور کوئی مماثلت نہیں تھی۔ گاندھی ایک باعمل ہندو تھے جبکہ ثانی الذکر یعنی جناح اسلام کے ایک بے پروا پیروکار۔ جناح نے مذہب کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنایا تو گاندھی کی زندگی اور سیاست دونوں کی بنیاد مذہب اور عقیدہ ہی رہا۔ گاندھی پر تھورو اور ٹالسٹائی کا گہرا اثر تھا جبکہ جناح پر گھوگھلے اور دادابھائی کا، وہ بھی صرف سیاسی اثر تھا۔
ان دونوں نے کسی نہ کسی حثییت سے نہ صرف واقعات سے بھرپور تحریک آزادی کی دہائیوں کو زبردست طور سے متاثر کیا بلکہ اس جنگ کو ایک خاص شکل بھی دی۔ گاندھی نے اپنی تلاش کی ناکامی تسلیم کر لی، جبکہ دوسری طرف جناح نے کہا تھا کہ میں نے ایک ٹائپ رائٹر اور کلرک کی مدد سے پاکستان جیت لیا۔
امریکی مورخ سٹینلے وولپرٹ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’جناح آف پاکستان‘ کی ابتدا ان الفاظ سے کرتا ہے: ’بہت کم شخصیات تاریخ کے دھارے کو قابل ذکر انداز سے موڑتی ہیں اس سے کم وہ افراد ہیں جو دنیا کا نقشہ بدلتے ہیں اور ایسا تو شاید ہی کوئی ہو جسے ایک قومی ریاست تخلیق کرنے کا اعزاز حاصل ہو۔‘
جناح نے 11 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ آپ اپنے مندروں، مسجدوں اور اپنی عبادت گاہوں میں (عبادت کی غرض سے) جانے کے لیے بالکل آزاد ہیں چاہے آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، قوم یا ذات سے ہو اس (نئی) ریاست کو اس حوالے سے کوئی مسائل نہیں ہوں گے۔
14 نومبر 1946 کو محمد علی جناح نے نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کی جب اُن سے ابھی تک پیدا نہ ہونے والے فرقہ وارانہ صورتحال اور اقلیتوں کے حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے دوٹوک انداز میں جواب دیا کہ ایک دوسرے ملک کا اقتدار آئے گا تو کشیدگی تھم جائے گی اور یہ اقلیتی اس وقت اقلیت کی حیثیت سے آباد ہو جائیں گے۔ جناح نے اعلان کیا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ اگر ممکن ہوا تو مسلمانوں سے بھی بہتر انداز میں پیش آیا جائے گا۔ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ حقوق نہیں ملیں گے ریاست برابری کی سطح پر برتاؤ کرے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فروری 1948 میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نام نشری تقریر میں محمد علی جناح نے فرمایا، ’مجھے یقین ہے کہ دستور جمہوری طرز کا ہو گا جس میں اسلام کے لازمی بنیادی اصول شامل ہوں گے وہ اصول جو آج بھی حقیقی زندگی میں اسی طرح نافذ العمل ہیں جس طرح 14 سو سال پہلے تھے۔ اسلام اور اس کے تصورات نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اس نے ہمیں تعلیم دی ہے مساوات انسانی کی، عدل کی اور ہر ایک کے ساتھ انصاف برتنے کی۔ ہم لوگ وارث ہیں ان شاندار روایات کے اور پاکستان کا آئین تیار کرتے وقت اپنی ذمے داریوں اور فرائض کے معاملے میں پوری طرح بیدار ہیں۔‘
بانی پاکستان آمریت کے شدید مخالف تھے وہ آمریت کی تمام تر شکلوں کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ فوجی آمریت ہو یا جمہوریت کے نام پر شخصی آمریت وہ فوج کی سیاست میں دلچسپی لینے کے اس درجہ مخالف تھے کہ جب سبھاش چندربوس نے جاپان کی مدد سے انڈین نیشنل آرمی قائم کی تو قائداعظم نے یہ کہہ کر اس کی شدید مذمت کی کہ فوج کو سویلین اتھارٹی کی حکم عدولی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
قیام پاکستان کے بعد جون 1948 میں اسٹاف کالج کوئٹہ میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ فوج پر لازم ہے کہ وہ دستور کا احترام کرے۔ جس پاکستان کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا اس میں عوام مقتدر اعلیٰ کی حیثیت رکھتے تھے۔
قائد محمد علی جناح کے ان افکار کے بعد بڑی حد تک واضح ہو جاتا ہے کہ وہ پاکستان کو کیسی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ یہاں سوال کلبلا رہا ہے کہ کیا آج کا پاکستان قائد اعظم کے افکار سے مطابقت رکھتا ہے؟
تو دکھی دل کےساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اگر پاکستان اپنے بانی کے تصورات کا آئینہ دار ہوتا تو ان تصورات کا زبانی تذکرہ کرنے کی بجائے ہم اپنے ملک کو عملی نمونہ بناتے اپنے گردوپیش پر نظر دوڑاتے اور بڑے فخر کےساتھ دنیا کو بتاتے کہ یہی بانی پاکستان کے تصورات کی تصویر اور ان کی عملی تعبیر ہے۔ مگر ہمارے ہاں نہ آزادی فکر کسی شعبے میں ہے اور نہ رواداری، نہ سیاسی طور پر رواداری نظر آتی ہے اور نہ مذہبی حلقوں میں اس کا عکس نظر آتا ہے۔ رہ گئی آزادی فکر اس کا تو نام و نشان نہیں ہاں فکر پر بندشیں بہت لگتی ہیں۔
مملکت خداداد پاکستان کو اگر باوقار ملکوں کی صف میں شامل کرنا ہے تو سیاست دانوں کو مل بیٹھ کر محمد علی جناح کے افکار کی روشنی میں ایک نیا عمرانی معاہدہ کرنا ہو گا۔ اداروں کو اپنی حدود میں واپس جانا ہو گا۔ سویلین سپرمیسی کو فوقیت دینا ہو گی۔ اصل حکمرانی جمہور کی ہو گی تو ملک ترقی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑے گا۔
(یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جن سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)