اس سال کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے باعث نہ صرف سکول اور کالج بند کردیے گئے بلکہ امتحانات بھی منسوخ کردیے گئے اور طلبہ کو نئی کلاسوں میں پروموٹ کردیا گیا۔
تاہم کیمبرج سسٹم کے تحت اے لیول کے امتحانات، جو عام طور پر مئی یا جون کے مہینے میں ہوتے تھے، کے نتائج کا اعلان ایک خاص سسٹم کے تحت کیا گیا جس کی وجہ سے کئی طلبہ ناخوش ہیں اور انہیں جامعات میں داخلہ لینے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ کیمبرج کے گریڈنگ سسٹم پر کئی سوالات اٹھا رہے ہیں۔
اے لیول کے طلبہ کے لیے گریڈ کا فیصلہ کیسے کیا گیا؟
13اگست کو کیمبرج سسٹم کی جانب سے اے لیول کے حتمی نتائج کا اعلان کیا گیا۔ برطانیہ میں امتحانات کی ریگولیٹری باڈی 'دی آفس آف کوالیفیکیشنز اینڈ ایگزامینیشنز ریگولیشن' (Ofqual) کی جانب سے نتائج جاری کرنے کے لیے چار مراحل پر مبنی ایک نیا سسٹم ترتیب دیا گیا۔
کیمبرج سے ایوارڈ یافتہ پاکستانی استاد احمد سایا جو اس وقت کراچی کے کورڈوبا سکول فار اے لیول میں اکاؤنٹنگ اور ریاضی پڑھاتے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس نئے گریڈنگ سسٹم کو سمجھنے میں مدد دی۔
احمد سایا کے مطابق حتمی نتائج کے لیے اس سسٹم کے تحت اساتذہ نے طلبہ کی گزشتہ ایک سال کی کارکردگی کے تمام شواہد جمع کرکے ان کی بنا پر طلبہ کو اندازے کی بنیاد پر گریڈز (estimated grades) دیے اور اس کے ساتھ ساتھ امتحانات کی ریگولیٹری باڈی میں ایک رینک آرڈر بھی جمع کروایا اور ریگولیٹری باڈی نے پھر اساتذہ کی جانب سے دیے گئے گریڈز پر ایک standardization process لگایا۔
احمد سایا نے مزید بتایا کہ طریقہ کار کا مطلب یہ ہے کہ سکول کا پچھلے تین سالوں کا نتیجہ دیکھا گیا کہ ان سالوں میں کتنے فیصد بچوں کے A*، A، B، C، D،E یا U گریڈ آئے تھے۔ اس کی بنیاد پر ریگولیٹری باڈی نے تخمینہ لگایا کہ اس سال بھی اس سکول میں اسی طرح کا تنیجہ آئے گا، جس طرح پچھلے تین سالوں میں آیا ہے۔
احمد سایا کہ مطابق: 'مسئلہ وہاں پیدا ہوا جب کیمبرج نے اساتذہ کی جانب سے دیے گئے گریڈز اور سکول کی پچھلے تین سال کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے طلبہ کو حتمی طور پر بہت کم گریڈز دیے ، یہاں تک کہ کئی طلبہ کو یو گریڈ دے کر فیل بھی کر دیا جبکہ انہوں نے تو امتحانات ہی نہیں دیے تھے تو وہ اس میں فیل کیسے ہوسکتے ہیں؟'
طلبہ کا کیا ردعمل ہے؟
اے لیول کا نتیجہ آنے کے بعد پاکستان میں متعدد سکولوں اور کالجز کے طلبہ انتہائی غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں اور 15 اگست کو طلبہ کی جانب سے کراچی پریس کلب پر احتجاج کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
فیس بک پر طلبہ کی جانب سے متعدد پیغامات شائع کیے گئے ہیں اور گروپس بنائے گئے ہیں جہاں وہ اپنے نتائج سے غیر مطمئن ہونے اور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا اظہار کر رہے ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے محمد علیان خان، جنہوں نے اپنا اے لیول روٹس ملینیئم کالج کلفٹن سے مکمل کیا ہے، نے اپنے او لیول اور اے لیول کے پہلے سال کے نتائج ہمیں دکھائے، جس میں ہر سال انہوں نے سٹریٹ A’s حاصل کیے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ہر مضمون میں A یا A* گریڈ حاصل کیا تھا۔
تاہم حال ہی میں آنے والے اے لیول کے نتائج میں انہیں حیاتیات، کیمسٹری، فزکس اور ریاضی میں ڈی، اے، سی اور بی گریڈ دیے گئے ہیں جس کی انہیں بالکل توقع نہیں تھی۔
علیان کا کہنا ہے: 'میں نے اپنے او لیول اور اے لیول میں آج تک اے گریڈ سے کم رینک حاصل نہیں کیا، میں اپنے سکول میں سب سے بہترین گریڈز لینے والا طالب علم ہوں، پھر آخر کس بنیاد پر مجھے اتنے کم گریڈز دیے گئے ہے؟ میرا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے، میں میڈیکل کا طالب علم ہوں اور آگے ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں لیکن کوئی بھی اچھی میڈیکل یونیورسٹی مجھے ان گریڈز پر داخلہ نہیں دے گی کیوں میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے کم از کم سٹریٹ B’s کی ضرورت ہوتی ہے۔'
سٹی سکول، پی اے ایف چیپٹر کی طالبہ ماہ نور محمد آصف بھی اپنے اے لیول کے نتیجے سے مطمئن نہیں ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے سکول کی جانب سے بھیجے گئے گریڈز میں اکاؤنٹنگ کے موضوع میں بی گریڈ اور بزنس میں سی گریڈ دیا گیا تھا جبکہ جمعرات کے روز آنے والے حتمی نتائج میں انہیں اکاؤنٹنگ میں سی گریڈ ملا ہے اور بزنس میں انہیں یو گریڈ دے کر فیل کردیا گیا ہے۔
ماہ نور کہتی ہیں کہ انہیں اس وقت کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کیا کریں، تاہم وہ اکتوبر اور نومبر میں ہونے والے امتحانات کے لیے تیاری شروع کر رہی ہیں کیوں کہ اس کے علاوہ انہیں کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا۔
کیا جامعات طلبہ کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں؟
اے لیول کا نتیجہ آنے کے بعد پاکستان کی متعدد جامعات نے داخلوں کے لیے اپنی پالیسی واضح کردی ہے، جس کے حوالے سے طلبہ کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے ان کے مستقبل کو نقصان پہنچے گا جبکہ انہوں نے جامعات سے توقع کی تھی کہ اس عالمی وبا کے دور میں وہ ان کے لیے تھوڑی بہت رعایت کردیں گے لیکن سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے۔
سٹی سکول گلشن گرلز کیمپس کی طالبہ حفصہ میمن نے اے لیول کا نتیجہ آنے کے بعد انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینیجمنٹ سے رابطہ کیا جہاں وہ داخلے کی فیس جمع کروا چکی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یونیورسٹی کی جانب سے جوابی ای میل میں، جس کا سکرین شاٹ انہوں نے فیس بک پر اپنی پوسٹ میں شائع کیا ہے، کہا گیا کہ 'وہ طلبہ جنہیں اس جامعہ میں داخلہ مل چکا ہے، ان کے لیے دو صورتیں ہیں۔ یا تو وہ طلبہ اکتوبر اور نومبر میں دوبارہ امتحان دے کر داخلے کے معیار پر پورا اترنے کی صورت میں جنوری سے اپنے تعلیمی سال کا آغاز کرسکتے ہیں یا پھر وہ سیٹ سے دستبردار ہوجائیں اور فیس واپسی کی پالیسی کے لیے ہماری ویب سائٹ سے رجوع کریں۔'
حفصہ کہتی ہیں کہ 'یونیورسٹیوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ ان کے اس اقدام سے ہمارا اور ہمارے والدین کا کتنا وقت اور پیسہ برباد ہوگا۔'
کراچی کے ایک مشہور کوچنگ سینٹر کے استاد سلمان غفار نے طلبہ کی مدد کے لیے اس معاملے پر کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) سے رابطہ کیا۔ ان کی جانب سے سلمان کو بتایا گیا کہ جن طلبہ کے گریڈز آئی بی اے کی سال 2020 کی پالیسی کے مطابق نہیں ہیں انہیں اکتوبر اور نومبر میں دوبارہ اپنے اے لیول کے امتحانات دینے ہوں گے جس کے اندراج کی رسید انہیں جامعہ کو ای میل کے ذریعے بھیجنی ہوگی۔
آئی بی اے کی داخلوں سے متعلق کمیٹی اکتوبر اور نومبر کے نتائج آنے کے بعد حتمی فیصلہ دے گی، تاہم اس دوران اے لیول کے طلبہ کو داخلے کی فیس جمع کروانے کی ضرورت نہیں ہے، جس کی آخری تاریخ 17 اگست بتائی گئی تھی۔
کیا اکتوبر اور نومبر میں دوبارہ امتحان دینا آسان ہوگا؟
متعدد جامعات کی جانب سے اب یہ شرط رکھی گئی ہے کہ اے لیول کے طلبہ اکتوبر اور نومبر میں دوبارہ امتحان دے کر اپنے نتائج جمع کروائیں، جس کی بنیاد پر انہیں داخلہ دینے کا فیصلہ کیا جائے گا، تاہم طلبہ کی رائے میں یہ عمل اتنا آسان نہیں۔
کراچی کے روٹس ملینیئم کالج کلفٹن کے طالب علم سیف اللہ، جن کے اے لیول کے نتائج میں انہیں دو مضامین کیمسٹری اور فزکس میں یو گریڈ دے کر فیل کردیا گیا ہے، نے بتایا کہ ان کے والدین نے روٹس کالج کی انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ وہ کیمبرج کے ریگولیٹری بورڈ سے نظر ثانی کی اپیل کریں۔
اکتوبر اور نومبر میں دوبارہ امتحانات دینے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا: 'میں نے پانچ ماہ سے کتابوں کو ہاتھ ہی نہیں لگایا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ میں ایک سال کا کورس دو ماہ میں مکمل کرلوں۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'یہ کسی بھی طالب علم کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ دو ماہ بعد امتحانات دے اور اچھا گریڈ حاصل کرلے۔ میتھس، اکاؤنٹنگ، کیمسٹری اور فزکس جیسے مشکل مضامین کی تیاری کرنے کے لیے کافی وقت چاہیے ہوتا ہے۔ اے لیولز میں تو بی گریڈ لانا بھی آسان کام نہیں۔ اگست کے دو ہفتے تو ویسے بھی گزر چکے ہیں، صرف ستمبر کا ایک مہینہ ہمارے پاس ہے۔ ہم صرف ایک ماہ میں کیسے تیاری کریں گے؟'
سیف اللہ کے مطابق وہ کیمبرج بورڈ کے فیصلوں پر سوال نہیں اٹھا رہے لیکن اب کم از کم جامعات کو تھوڑی نرمی دکھانی چاہیے تاکہ اے لیول کے طلبہ کا مستقبل برباد نہ ہو۔