مقامی ذرائع کے مطابق جمعرات کو ترک جنگی جہازوں کی شمالی عراق میں ایک گاڑی پر بمباری کے نتیجے میں تین کرد جنگجو ہلاک ہو گئے۔ عراق نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ترکی کو اپنی سرحدوں پر کارروائی سے باز رکھنے کے لیے علاقائی معاونین سے مدد کی اپیل کی ہے۔
کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے خلاف اس آپریشن کا آغاز ترکی نے جون کے وسط میں کیا تھا۔
نواحی علاقے کے مئیرمشیر بشیر کے مطابق یہ بم جمعرات کے روز عراق کے صوبے دہوک میں واقع گاؤں راشانکی سے گزرنے والی ایک گاڑی پر گرائے گئے جس کے نتیجے میں تین کرد جنگجوؤں کی ہلاکت ہوئی اور چوتھا سوار زخمی ہوا۔
عرب نیوز کے مطابق انہوں نے مزید بتایا کہ وہ چاروں افراد ایک جیپ میں سوار تھے اور سودا سلف لینے ایک دکان کے باہر رکے تھے جب انہیں نشانہ بنایا گیا۔
اس واقعے کے بعد ترک عراق کشیدگی میں مزید اضافہ سامنے آیا ہے۔
دوسری جانب ترکی کرد جنگجوؤں کے خلاف کارروائی میں خود کو حق بجانب سمجھتا ہے اور الزام عائد کرتا ہے کہ یہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے جسے عراق کی جانب سے قابو نہیں کیا جاتا۔
اس واقعے سے قبل بھی رواں ہفتے دو سینئیر عراقی افسر اپنے ڈرائیور سمیت ترکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ افسروں کی ہلاکت کا مذکورہ واقعہ بغداد میں ترک سفیر کی گذشتہ دو مہینوں کے دوران تیسری طلبی کی وجہ بھی بن چکا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمعے کے روز عراقی وزیر خارجہ فواد حسین نے بحرین اور عرب امارات کے سفیروں سے رابطہ کرنے کے بعد مصر، اردن، سعودی عرب سمیت کویت کے وزرا ہائے خارجہ سے اپیل کی کہ ترکی کو قانونی طور پر اپنی سرحدوں میں رہنے کا پابند کیا جائے اور عراقی حدود میں جارحیت بند کروائی جائے۔
ماہرین کے مطابق واقعتاً ایسا ہو جانا ایک بڑا چیلنج ہے۔
ترکی، جس کے ساتھ عراق کے اہم تجارتی تعلقات بھی ہیں، ایک اہم علاقائی طاقت کی حیثیت رکھتا ہے اور گزشتہ 25 برس سے عراقی کردستان میں اپنی چھاؤنیاں قائم کیے ہوئے ہے۔
کرد ذرائع کے مطابق ترکی اپنی فوجی چھاؤنیوں میں اضافہ بھی کر رہا ہے۔
پی کے کے، اس مخفف سے پہچانی جانے والی کردستان ورکرز پارٹی 1984 سے ترک ریاست مخالف واقعات میں ملوث پائی گئی ہے۔
ماضی میں شمالی عراق سے اس تحریک نے ترکی کے خلاف زمینی کارروائیاں کیں جن کے بعد وہاں ترک چھاؤنیاں بنائی گئیں تاکہ ان کا مقابلہ کیا جا سکے۔