سندھی زبان کے معروف مصنف، ادیب اور قوم پرست رہنما تاج جویو نے یہ کہہ کر صدارتی تمغہ لینے سے انکار کردیا ہے کہ ان کے بیٹے سارنگ سمیت سندھ کے متعدد نوجوانوں کو جبری طور پر گمشدہ کردیا ہے، ایسے میں وہ کس طرح ایوارڈ لے سکتے ہیں۔
تاج جویو کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے 'صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی' کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے یوم آزادی کے موقع پر 184 ملکی اور غیر ملکی شخصیات کے لیے کئی سول تمغوں کا اعلان کیا تھا، جنہیں اپنے شعبوں میں عمدہ کارکردگی اور بہترین خدمات کے بدلے 23 مارچ کو 'یوم پاکستان' پر منعقدہ ایک تقریب میں تمغوں سے نوازا جائے گا۔
صدر پاکستان نے 27 شخصیات کے لیے ستارہ امتیاز، 24 کے لیے ستارہ شجاعت، 23 کے لیے تمغہ شجاعت، 46 کو تمغہ امتیاز، 7 کے لیے نشان امتیاز، 2 کے لیے ہلال امتیاز، ایک کے لیے ہلال قائد اعظم، 2 کے لیے ستارہ پاکستان، 6 کے لیے ستارہ قائد اعظم، ایک کے لیے ستارہ خدمت، ایک کے لیے تمغہ پاکستان، ایک کے لیے تمغہ قائد اعظم جبکہ 44 شخصیات کے لیے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی کا اعلان کیا ہے۔
تاج جویو سمیت صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ایوارڈ کے لیے گلوکار محمد علی شہکی، ادیب ماہتاب محبوب، اداکارہ سکینہ سموں، ہمایوں سعید اور دیگر شخصیات شامل ہیں۔
کئی کتابوں کے لکھاری تاج جویو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: 'میرے بیٹے سارنگ سمیت سندھ کے متعدد نوجوانوں کو جبری گمشدہ کردیا گیا ہے، ایسی صورت میں میں کیسے صدارتی تمغے کا لولی پوپ لے سکتا ہوں؟'
انہوں نے مزید کہا: 'وفاق نے سندھ کو کالونی بناکر رکھا ہوا ہے، سندھ کے وسائل پر قبضہ کرلیا گیا ہے، سندھ کے حصے کے پانی پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے، سندھ کی سیکولر روایات کو ختم کرنے کے لیے مذہبی انتہا پسندی کا بیج بویا جارہا ہے اور کئی نوجوانوں کو لاپتہ کردیا گیا، ایسے میں میں کوئی ایوارڈ کیسے لے سکتا ہوں؟'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاج جویو سندھی زبان کے با اختیار ادارے یعنی سندھ لینگویج اتھارٹی کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں، اس کے علاوہ وہ چار بار سندھی ادبی سنگت کے سیکرٹری جنرل کے طور پر بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ 1972 میں ایک سرکاری سکول میں بطور استاد مقرر ہوئے تاہم سابق فوجی آمر ضیاء الحق کے خلاف احتجاج کرنے پر ان کی نوکری ختم کردی گئی اور انہیں گرفتار کرکے ڈیڑھ سو کوڑے مارے گئے تھے۔ بعدازاں ضیاء الحق کی ملٹری کورٹ نے انہیں ایک سال کے لیے جیل بھیج دیا تھا۔
تاج جویو کے مطابق: 'ایسا تو فوجی آمروں کے دور میں بھی نہیں ہوتا تھا۔ ضیاء الحق کے دور میں بھی لوگوں کو جیل کے اندر سے اٹھالیا جاتا تھا مگر تب سب کو پتہ ہوتا تھا کہ کون اٹھاکر لے گیا ہے، گھر والوں سے ملاقات کروائی جاتی تھی، مگر اب تو کچھ پتہ نہیں کون لے گیا ہے۔'
انہوں نے مزید کہا: 'اب کوئی ماننے کے لیے بھی تیار نہیں کہ انہوں نے کسی کو اٹھایا ہے۔ اب کچھ لوگ آتے ہیں جن کی گاڑیوں کے نمبر تک نہیں ہوتے اور اٹھاکر لے جاتے ہیں۔ میرے بیٹے سارنگ کو لاپتہ کرنے والوں نے بلڈنگ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کو بھی زبردستی ختم کردیا تاکہ پتہ نہ چل سکے کہ کون لے گیا۔'
واضح رہے کہ تاج جویو کے بیٹے اور کراچی میں واقع زیبسٹ یونیورسٹی کے سندھ ابھیاس اکیڈمی شعبے کے ریسرچ ایسوسی ایٹ 35 سالہ سارنگ جویو کو گذشتہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب کراچی کے علاقے اختر کالونی سے لاپتہ کردیا گیا تھا۔
دو بیٹیوں کے والد سارنگ جویو سندھ سے گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے گذشتہ کئی ماہ سے کراچی پریس کلب کے سامنے اپنے والد تاج جویو، اہلیہ سوہنی جویو اور دو کم سن بیٹیوں کے ساتھ احتجاج کررہے تھے۔ سارنگ جویو نے سندھ سجاگی فورم بھی تشکیل دیا تھا اور یہ تنظیم لاپتہ افراد کی بایابی کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔
سندھ سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی کنوینر سسی لوہار کے مطابق اب تک سندھ سے 70 سے زائد افراد لاپتہ ہیں۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں بتایا ہے کہ انہوں نے پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کو درخواست کی ہے کہ سارنگ جویو کا کیس سینیٹ میں اٹھایا جائے۔
بلاول نے مزید لکھا: 'امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں انسانی حقوق کمیٹی کا اجلاس سندھ کے گمشدہ افراد کے معاملے پر سندھ میں ہوگا۔'
Had requested @Mustafa_PPP to take up the case of #SarangJoyo . Hopeful a future Senate Human Rights Committee meeting will be held in Sindh to take up the issue of missing persons in the province. https://t.co/aVazjJffw1
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) August 15, 2020