بھارت کی مرکزی حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے وال سٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والے انکشافات کے بعد فیس بک انتظامیہ سے ان الزامات کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا ہے جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہندو قوم پرست حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سیاست دانوں کو اس پلیٹ فارم پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد پھیلانے کی کھلی چھوٹ دی گئی تھی۔
گذشتہ جمعے کو امریکہ کے معتبر اشاعتی ادارے کی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ کس طرح وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت کے رکن ٹی راجا سنگھ نے اپنے ذاتی فیس بک پیج کا استعمال کرتے ہوئے روہنگیا تارکین وطن کو گولی مارنے اور مساجد گرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
رواں برس مارچ میں فیس بک کے داخلی نگرانی کے شعبے نے اس اکاؤنٹ کو خطرناک قرار دیتے ہوئے راجا سنگھ پر فیس بک کے پلیٹ فارم کے استعمال پر پابندی لگانے کی سفارش کی تھی تاہم بھارت میں کمپنی کی پبلک پالیسی کی اعلیٰ ترین عہدیدار انکھی داس فیس بک کے نفرت انگیز مواد کے اصولوں کو یہاں نافذ کرنے کے خلاف تھی، جن کا ماننا تھا کہ ایسا کرنے سے بھارت میں فیس بک کے کاروبار پر اثر پڑ سکتا ہے۔
دوسری جانب ٹی راجا سنگھ کے فیس بک اور انسٹاگرام پر اکاؤنٹس تاحال موجود ہیں۔
’فارن پالیسی‘ جریدے کے مطابق کانگریس پارٹی نے فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ کو لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ وہ وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات اور بھارت میں اپنی انتظامیہ کی ٹیم کو تبدیل کرنے پر غور کریں۔
دوسری جانب بی جے پی کے چیف انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی نے فیس بک کے حوالے سے ایک بھارتی اخبار میں لکھا ہے کہ کمپنی کو بی جے پی کی زر خرید لونڈی سمجھنا مضحکہ خیز الزام ہے۔
ادھر فیس بک کے اپنے ملازمین کمپنی کے اس دوہرے معیار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور فیس بک انڈیا کے عملے کے 11 ملازمین نے کمپنی کی قیادت کو ایک کھلا خط لکھا ہے، جس میں انہوں نے کمپنی کے نفرت انگیز مواد کے حوالے سے پالیسی پر عمل درآمد کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق خط میں لکھا گیا ہے کہ ان واقعات کو دیکھ کر غصے پر قابو پانا مشکل امر ہے اور فیس بک پر موجود مسلم کمیونٹی کے صارفین کمپنی کی قیادت سے اس بارے میں سننا چاہیں گے۔
یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اگلے ماہ پارلیمنٹ کے مون سون اجلاس میں ششی تھرور جیسے سیاست دان اس معاملے کی مزید تحقیقات کا مطالبہ کریں گے۔
دہلی میں ’عام آدمی پارٹی‘ کی ریاستی حکومت نے کہا ہے کہ وہ فیس بک کی سینیئر انتظامیہ کو اپنی ’امن و ہم آہنگی کمیٹی‘ کے روبرو طلب کرے گی۔ یہ کمیٹی رواں سال متنازع شہریت بل کے بعد مظاہروں کے دوران دہلی میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد قائم کی گئی تھی۔ بی جے پی رہنماؤں پر سوشل میڈیا کے ذریعے دہلی فسادات کی آگ بھڑکانے کا بھی الزام ہے۔
ممکن ہے کہ یہ دونوں اقدامات فیس بک کے لیے زیادہ شرمناک صورت حال پیدا کریں گے اور کمپنی پر بی جے پی کو ترجیحی سلوک سے نوازنے کے الزامات کی تحقیقات کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو گا۔
بھارت صارفین کے لحاظ سے فیس بک کی سب سے بڑی منڈی ہے جو اس کی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔
اس کمپنی کے بھارت میں سیاسی روابط بھی مضبوط ہیں، جن کی مثال انکھی داس اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کے لیے کی گئی لابنگ اور کمپنی کے سی ای او زکربرگ کی نئی دہلی اور کیلیفورنیا میں نریندر مودی سے کی گئی ذاتی ملاقاتیں شامل ہیں۔
اور اب اس سال ارب پتی مکیش امبانی کی کمپنی ریلائنس میں فیس بک کی 5.7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نے کمپنی کو دہلی کی سیاسی راہداریوں تک بالواسطہ رسائی دلا دی ہے۔ اس طرح اب فیس بک کے پاس تعلقات عامہ کے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ایک موثر مشینری موجود ہے اور کسی بھی ممکنہ کارروائی سے بچنے کے لیے ایک مضبوط قانونی ٹیم بھی۔